ڈیلی نیوز! ہم سب ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک ہماری خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی ۔ میرےوالد کا نام بشیر احمد تھا۔وہ بہت سنجیدہ مزاج انسا ن تھے، ہمیشہ شلوار قمیض پہنا کرتے۔ انکے چہرے پر داڑھی تھی۔ میری امی کا نام شیلا تھا ۔نشیلی آنکھیں اور لمبے لمبے بال تھے ۔-کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کی آزمائش لیتا ہے اور اس کے کچھ بندے اس کی آزمائش پر پو را اترجاتے ہیں اور کچھ کمزور پڑھ جاتے ہیں
۔ میری زندگی میں بھی ایک ایساواقعہ ہوا جس کی وجہ سے میری اورمیرے بھائی کی پوری زندگی بدل گئی۔میرے بھائی کا نام اقبال اور میرا نام ثناء ہے۔ میرے ابو کا پیشہ رکشہ چلانا تھا ۔ ابو کی آمدنی اتنی نہ تھی کہ وہ امی کی خواہشات پوری کر سکیں۔ روز گھر میں نوک جھونک ہو تی تھی۔ امی پورا پورا دن گھر سے باہر رہتی تھیں۔ جب رات کو گھر پہنچتی توکسی سے بات نہ کرتی اور سوجاتی جیسے ان کا اپنے شوہر اور اولاد سے کوئی تعلق نہ ہو۔امی علی نام کے آ دمی سے ملیں جو بہت امیر تھا۔ امی اور اس آدمی کی نزدیکیاں بہت بڑھنے لگ گئیں اور امی نے اس آ دمی سے شادی کرنے کے لئے ابو سے طلاق کا مطالبہ کیا۔ ابو نے امی کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ تمھاری۲ سال کی بیٹی ہے اور ۴ سال کا بیٹا ہے میرا نہیں کم از کم ان بچوں کے بارے میں ہی سوچ لو۔ مگر امی کسی حال کچھ بھی سمجھنے کے لئے تیار نہ تھیں۔ انہیں صرف اپنی خواہشات کی پرواہ تھی اور اسی وجہ سے میرے والدین کی طلاق ہو گئی ۔
جس وقت مجھے اور میرے بھائی کو ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ ہمیں دنیا کے اس اندھیرے میں تنہا کر گئی تھیں۔ ابو اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا سہارا نہ تھا جب کسی ماں کو اپنی اولاد کو پیا ر کرتا دیکھتی تو اس ماں کی ممتا کو دیکھ کر میرا دل رو پڑتا اور گھنٹوں اکیلے بیٹھ کر رویا کرتی تھی۔ سردیوں میں جب تمام بچے اپنی ماں کی گرم آغوش کے سائے میں سو رہے ہوتے تو میں رات کی تیز ہواؤں کے جھونکوں سے ڈر جاتی تو تب میں ایک دیوار کے ساتھ گھنٹوں اپنا سر زمین کی آغوش میں رکھ کر سوتی اور دعا کرتی کہ اللہ تعالیٰ اس رات کی سیاہی جلد ختم کر دے۔تکلیف جب زیادہ ہوتی تو جب اپنوں سے زیادہ غیر لوگ ہمیں ترس کھا کر یہ کہتے یہ لو کھانا ہمارے گھر آؤ کھانا کھالو ، کچھ لوگ ترس کھا کر اپنے بچوں کے پہنے ہو ئے کپڑے مجھے اور میرے بھائی کو دیتے ہم انہیں بڑی خوشی خوشی پہن کر اپنے وقت کو گزارتے تھے
۔ لوگ کہتے ہیں کہ میری آنکھوں میں بہت درد ہے ان درد کے سائے میں ، میں نے جینا سیکھ لیا تھا۔مجھے اپنی ماں سے نفرت ہو چکی تھی اس نے کبھی یہ جاننے کی بھی کوشش نہ کی تھی کہ اس کی اولاد کس حال میں ہے۔ کبھی ملنے نہیں آ تی تھی وہ عورت ماں کہلانے کے بالکل لائق نہ تھی۔ اپنی ماں سے دھوکہ کھانے کے بعد اب مجھے کسی رشتہ پر اعتبار نہ رہا تھا۔ میرے ابو نے ہمیں پال پوس کر بڑا کیا اور ہمارے لئے محنت کرتے تھے تاکہ دو وقت کی روٹی میسر ہو سکے۔ میں اور میرے بھائی پریشانیوں کے باعث تعلیم حاصل نہ کر پائے تھے ۔-وقت تیزی سے گزرتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے 10 سال گزر گئے۔ وقت کے ساتھ زندگی بہت بدل چکی تھی اب میرے ابو بھی دوسری شادی کر چکے تھے۔ اس عورت کا نا م صبا تھا ۔نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی عورت طلاق شدہ تھی
اور ابو کو ہر وقت مانوس کرنے کے لئے بنی سنوری رہتی تھی۔ سوتیلی ماں کے آنے کے بعد اب ابو بھی کافی بدل چکے تھے۔ اس عورت نے بیوی ہونے کے تمام فرائض ادا کئے لیکن وہ ہمیں اپنی اولاد کی طرح نہیں اپنا پائی ۔ میرا ملنا جلنا خاندان سے بھی ختم کر دیا تھا۔ میں پورا پورا دن اکیلے کمرے میں گزار دیتی تھی۔ اس عورت کا رویہ ہم دونوں بہن بھائیوں سے بالکل اچھا نہ تھا ۔مجھ سے پورے گھر کا کام کرواتی اور کھانا پکواتی اور بھائی کو بھی نوکری پر لگوادیا تھا۔ جہاں غلط صحبت ملنے کی وجہ سے وہ سگریٹ پینے کا عادی بن چکا تھا اور آہستہ آہستہ اس نے سارے نشے کرنا شروع کر دیے تھے۔ اس عورت نے مجھے تعلیم تک حاصل نہ کرنے دی اور نہ ہی مجھے اچھے اور برے کی تمیز سمجھائی۔ اس عورت کی ایک ماں اور دو شادی شدہ بہنیں اور ایک بھائی تھا اس کے گھر والے اکثر آیا کرتے تھے۔ اس کا بھائی اچھی شخصیت کے کردار کا حامل نہ تھا مجھے غلط نظروں سے دیکھتا ۔
کبھی کسی بہانے سے میرا ہاتھ پکڑتا اور کبھی کسی بہانے سے میرے پاس آکر بیٹھ جاتا۔ میں نے اس کی شکایت اپنی سوتیلی ماں سے کی تو ا س نے الٹا مجھے ڈانٹا ، دھمکایا اور گھر والوں کی نظر میں مجھے غلط ثابت کردیا تھا تاکہ مجھ پر کوئی یقین نہ کرے۔میں اس عورت کے ظلم کا حصہ بن چکی تھی اس نے میری نا سمجھی اور معصومیت کا فائدہ اٹھایا اور جس عمر میں بچے پڑھتے ہیں اس عمر میں میرے دماغ میں عشق و محبت جیسی باتیں بھر دیں ۔اپنے ذاتی مفاد کی خاطر میرا رشتہ اپنی خالہ کے بیٹے سے کر دیا ۔ رشتے کے وقت میں 12 سال کی تھی اور 1 سال گزر نے کے بعد آپس کے اختلافات کی وجہ سے یہ رشتہ میری سوتیلی ماں نے ختم کر دیا۔سوتیلی ماں مجھ سے کسی نہ کسی طریقے سے جان چھڑانا چاہتی تھی میرا رشتہ روھان نامی 26 سالہ لڑکے سے کر دیا۔ اسکی عمر 26 سال ، گندمی رنگ تھا۔ غریب طبقے سے تعلق رکھتا تھا
اور رکشہ چلاتا تھا۔رشتے کے بعد وقت تیزی سے گزرتا گیا اب میری عمر 15 سال ہو چکی تھی۔ شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ایک دن میں اور میرابھائی شادی کا سامان لینے بازار گئے۔ وہاں سے واپسی پر ایک عورت روڈ پر بھیک مانگ رہی تھی۔ اس کی صدا کان میں آئی تو ہم دونوں نے پلٹ کر دیکھا۔وہ کوئی اور نہیں ہماری ماں تھی۔ وہ ہمیں پہچان نہ سکی لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ ہم انہیں کی اولاد ہیں۔ جب ہم نے پوچھا کہ آپ کی یہ حالت کس نے کی تو انہوں نے بتایا کہ جس آدمی کے لئے میں نے اپنے انمول رشتے ٹھکرا دیے آج اس ہی آدمی نے مجھے چھوڑ دیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد جیسی نعمت سے محروم کر دیا تھا میں اس کو اولاد نہ دے سکی ۔ امی نے ہم دونوں سے بہت معافی مانگی اور ہم انہیں معاف کر کے گھر آگئے۔ وہ بھی میری شادی میں شریک ہوئیں ۔اللہ تعالیٰ نے میرے صبر کے کے صلے میں بہت اچھے شوہر سے نوازا۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے۔
شادی کے بعد مجھے اپنی سوتیلی ماں کے ظلم سے بھی آزاد ی مل چکی تھی۔ میرے کہنے پر میرے شوہر نے میری ماں کو بھی اپنے گھر میں جگہ دے دی۔ میں نے انہیں کبھی بھی اس بات کا احساس تک نہ ہونے دیا کہ وہ ہ ہمیں ماں کا پیا ر نہ دے سکیں اور ان کی بہت خدمت کی ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے اپنی اس نئی زندگی میں سکون، محبت ، اور وہ سب کچھ حاصل ہےجس کی مجھے چاہت تھی
اپنی رائے کا اظہار کریں