حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلا1 فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سواری کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے2 جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا ,اس نے اپنے کو سبک کیا اور جس نے
اپنی پریشان حالی کا اظہار کیا وہ ذلت پر آمادہ ہوگیا ,اور جس نے اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا ,اس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کر لیا .3 بخل ننگ و عار ہے اور بزدلی نقص و عیب ہے اورغربت مرد زیرک و دانا کی زبان کو دلائل کی قوت دکھانے سے عاجز بنا دیتی ہے اور مفلس اپنے شہرمیں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے اور عجز ودرماندگی مصیبت ہے اور صبر شکیبائی شجاعت ہے اور دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے اور پرہیز گاری ایک بڑی سپر ہے
.4 تسلیم و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے .5 عقلمند کا سینہ اس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے اور کشادہ روئی محبت و دوستی کا پھندا ہے اور تحمل و برد باری عیبوں کا مدفن ہے . (یا اس فقرہ کے بجائے حضرت نے یہ فرمایا کہ )صلح صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے .6 جو شخص اپنے کو بہت پسند کرتا ہے وہ دوسروں کو ناپسند ہوجاتا ہے اور صدقہ کامیاب دوا ہے ,اور دنیا
میں بندوں کے جو اعمال ہیں وہ آخرت میں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے7 یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے.8 جب دنیا (اپنی نعمتوں کو لے کر)کسی کی طرف بڑھتی ہے تو دوسروں کی خوبیاں بھی اسے عاریت دے دیتی ہے .اور جب اس سے رخ موڑ لیتی ,تو خود اس کی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے .9 لوگوں سے اس طریقہ سے ملو
کہ اگر مرجاؤ تو تم پر روئیں اور زند ہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں .10 دشمن پر قابو پاؤ تو اس قابو پانے کا شکرانہ اس کو معاف کر دینا قرار دو .11 لوگوں میں بہت درماندہ وہ ہے جو اپنی عمر میں کچھ بھلائی اپنے لیے نہ حاصل کرسکے ,اور اس سے بھی زیادہ درماندہ وہ ہے جو پاکر اسے کھو دے .12 جب تمہیں تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو .13جسے قریبی چھوڑ دیں اسے بیگانے مل جائیں گے .14
ہر فتنہ میں پڑ جانے والا قابل عتاب نہیں ہوتا .15سب معا ملے تقدیر کے آگے سر نگوں ہیں یہاں تک کہ کبھی تدبیر کے نتیجہ میں موت ہوجاتی ہے .16پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کے متعلق کہ بڑھاپے کو (خضاب کے ذریعہ)بدل دو .اور یہود سے مشابہت ;”>اختیار نہ کرو .آپ علیہ السّلام سے سوال کیاگیا ,تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اس موقع کے لیے فرمایا تھا .جب کہ دین (والے) کم تھے اور اب جب کہ اس کا
دامن پھیل چکا ہے اور سینہ ٹیک کر جم چکا ہے تو ہر شخص کو اختیار ہے .17 ان لوگوں کے بارے میں کہ جو آپ کے ہمراہ ہوکر لڑنے سے کنارہ کش رہے .فرمایا ان لوگوں نے حق کو چھوڑدیا اور باطل کی بھی نصرت نہیں کی .19بامروت لوگو ں کی لغزشوں سے درگزر کرو .(کیونکہ )ان میں سے جو بھی لغزش کھا کر گرتا ہے تو اللہ اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اسے اوپر اٹھالیتا ہے .20 خوف کا نتیجہ ناکامی اور شرم کانتیجہ محرومی ہے اور فرصت کی گھڑیاں
(تیزرو) ابر کی طرح گزر جاتی ہیں .لہٰذا بھلائی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنیمت جانو.«»«21 ہمارا ایک حق ہے اگر وہ ہمیں دیا گیا تو ہم لے لیں گے .ورنہ ہم اونٹ کے پیچھے والے پٹھوں پر سوار ہوں گے .اگرچہ شب روی طویل ہو .22 جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹا دیں اسے حسب و نسب آگے نہیں بڑھا سکتا .23 کسی مضطرب کی داد فریاد سننا ,اور مصیبت زدہ کو مصیبت سے چھٹکارا دلا نا بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہے .24 اے آدم علیہ السّلام کے بیٹے جب تو
دیکھے کہ اللہ تجھے پے درپے نعمتیں دے رہا ہے اور تو اس کی نافرمانی کررہا ہے تو اس سے ڈرتے رہنا .25جس کسی نے بھی کوئی بات دل میں چھپا کہ رکھنا چاہی وہ اس کی زبان سے بے ساختہ نکلے ہوئے الفاظ اور چہرہ کے آثار سے نمایاں ضرور ہو جاتی ہے .26 مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو .27 بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے .28 جب تم (دنیا کو ) پیٹھ دکھا رہے ہو .اور موت تمہاری طرف رخ کئے ہوئے بڑھ رہی ہے تو پھر
ملاقات میں دیر کیسی ؟29 ڈرو !ڈرو !اس لیے کہ بخدا اس نے اس حد تک تمہاری پردہ پوشی کی ہے ,کہ گویا تمہیں بخش دیا ہے .30 حضرت علیہ السّلام سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا .ایمان چار ستونوں پر قائم ہے .صبر ,یقین ,عدل اور جہاد . پھرصبر کی چار شاخیں ہیں .اشتیاق ,خوف ,دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار .اس لیے کہ جو جنت کا مشتاق ہو گا ,وہ خواہشوں کو بھلا دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے
گا اور جو دنیا سے بے اعتنائی اختیار کر ے گا ,وہ مصیبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہو گا ,وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا .اور یقین کی بھی چار شاخیں ہیں .روشن نگاہی ,حقیقت رسی ,عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طریقہ .چنانچہ جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گی .اور جس کے لیے علم وعمل آشکار ہو جائے گا ,وہ عبرت سے آشنا ہوگا وہ ایسا ہے جیسے وہ پہلے لوگوں میں موجود رہا
ہو اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں ,تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری .چنانچہ جس نے غور و فکر کیا ,وہ علم کی گہرائیوں میں اترا ,وہ فیصلہ کے سر چشموں سے سیراب ہوکر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختیار کی .اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی اورجہاد کی بھی چار شاخیں ہیں .امر بالمعروف ,نہی عن المنکر ,تمام موقعوں پر راست گفتاری اور
بدکرداروں سے نفرت .چنانچہ جس نے امر بالمعروف کیا ,اس نے مومنین کی پشت مضبوط کی ,اور جس نے نہی عن المنکر کیا اس نے کافروں کو ذلیل کیا اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بولا ,اس نے اپنا فرض اداکردیا اور جس نے فاسقوں کو براسمجھا اور اللہ کے لیے غضبناک ہوا اللہ بھی اس کے لیے دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قیامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے گا.31 کفر بھی چار ستونوں پر قائم ہے . اختلاف .تو جو بے جا تعمق و کاوش کرتا ہے , وہ حق
کی طرف رجوع نہیں ہوتا اور جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگڑے کرتا ہے , وہ حق سے ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور جو حق سے منہ موڑ لیتا ہے .وہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے اور گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑا رہتا ہے اور جو حق کی خلاف ورزی کرتا ہے , اس کے راستے بہت دشوار اور اس کے معاملات سخت پیچیدہ ہو جاتے ہیں اور بچ نکلنے کی راہ اس کے لیے تنگ ہو جاتی ہے ,شک کی بھی چار شاخیں ہیں ,کٹھ حجتی خوف
سرگردانی اور باطل کے آگے جبیں سائی .چنانچہ جس نے لڑائی جھگڑ ے کو شیوہ بنالیا ,اس کی رات کبھی صبح سے ہمکنار نہیں ہو سکتی اور جس کو سامنے کی چیزوں نے ہول میں ڈال دیا ,وہ الٹے پیر پلٹ جاتا ہے اور جو شک و شبہہ میں سر گرداں رہتا ہے .اسے شیاطین اپنے پنجوں سے روند ڈالتے ہیں اور جس نے دنیا و آخرت کی تباہی کے آگے سر تسلیم خم کردیا.وہ دوجہاں میں تباہ و برباد ہوا .32 نیک کام کر نے والا خود اس کام سے بہتر اور برائی کا مرتکب ہونے
والا خود اس برائی سے بدتر ہے .33 سخاوت کرو ,لیکن فضول خرچی نہ کرو اور جز رسی کرو ,مگر بخل نہیں .35 جو شخص لوگوں کے بار ے میں جھٹ سے ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جو انہیں ناگوار گزریں ,تو پھر وہ اس کے لیے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جنہیں وہ جانتے نہیں .36 جس نے طول طویل امیدیں باندھیں , اس نے اپنے اعمال بگاڑ لیے .37 امیرالمومنین علیہ السّلام سے شام کی جانب روانہ ہو تے وقت مقام انبار کے زمینداروں کا سامنا ہوا ,تو وہ آپ کو
دیکھ کر پیادہ ہو گئے اور آپ کے سامنے دوڑنے لگے .آپ نے فرمایا یہ تم نے کیا کیا ؟انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا عام طریقہ ہے .جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظیم بجالا تے ہیں .آپ نے فرمایا .خدا کی قسم اس سے تمہارے حکمرانوں کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ تم اس دنیا میں اپنے کو زحمت و مشقت میں ڈالتے ہو ,اور آخرت میں اس کی وجہ سے بدبختی مول لیتے ہو ,وہ مشقت کتنی گھاٹے والی ہے جس کا نتیجہ سزائے اخروی ہو , اور وہ راحت کتنی فائدہ مند
ہے جس کا نتیجہ دوزخ سے امان ہو .38 اپنے فرزند حضرت حسن علیہ السلام سے فرمایا مجھ سے چار, اور پھر چار باتیں یاد رکھو .ان کے ہوتے ہوئے جو کچھ کرو گے ,وہ تمہیں ضرر نہ پہنچائے گا سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے اور سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے اور سب سے بڑی وحشت غرور خود بینی ہے اور سب سے بڑا جوہر ذاتی حسن اخلاق ہے .اے فرزند !بیوقوف سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا ,تو نقصان
پہنچائے گا .اور بخیل سے دوستی نہ کرنا کیونکہ جب تمہیں اس کی مدد کی انتہائی احتیاج ہوگی ,وہ تم سے دور بھاگے گا .اور بدکردار سے دوستی نہ کرنا ,وہ تمہیں کوڑیوں کے مول بیچ ڈالے گا اور جھوٹے سے دوستی نہ کرنا کیونکہ وہ سراب کے مانند تمہارے لیے دور کی چیزوں کو قریب اور قریب کی چیزوں کو دور کر کے دکھائے گا .39 مستحبات سے قرب الہی نہیں حاصل ہوسکتا ,جب کہ وہ واجبات میں سدراہ ہوں .40 عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے
اور بے قوف کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے .42 اپنے ایک ساتھی سے اس کی بیماری کی حالت میں فرمایا .اللہ نے تمہارے مرض کو تمہارے گناہوں کو دور کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے .کیونکہ خود مرض کا کوئی ثواب نہیں ہے .مگر وہ گناہوں کو مٹاتا ,اور انہیں اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت سے پتے جھڑتے ہیں. ہاں ! ثواب اس میں ہوتا ہے کہ کچھ زبان سے کہا جائے اور کچھ ہاتھ پیروں سے کیا جائے نیک نیتی اور پاکدامنی کی وجہ سے جسے چاہتا
ہے جنت میں داخل کرتا ہے .43 جناب ابن ارت کے بارے میں فرمایا .خدا خباب ابن ارت پر رحمت اپنی شامل حال فرمائے وہ اپنی رضا مند ی سے اسلام لائے اور بخوشی ہجرت کی اور ضرور ت بھر قناعت کی اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہے اور مجاہد انہ شان سے زندگی بسر کی .44 خوشا نصیب اس کے جس نے آخرت کو یاد رکھا ,حساب و کتاب کے لیے عمل کیا .ضرورت بھر قناعت کی اور اللہ سے راضی و خوشنود رہا .45 اگر میں مومن کی ناک پر
تلواریں لگاؤں کہ وہ مجھے دشمن رکھے ,تو جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہ کرے گا .اور اگر تمام متاعِ دنیا کافر کے آگے ڈھیر کر دوں کہ وہ مجھے دوست رکھے تو بھی وہ مجھے دوست نہ رکھے گا اس لیے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپ نے فرمایا :اے علی علیہ السّلام ! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا.46 وہ گناہ جس کا تمہیں رنج ہو اللہ کے نزدیک اس نیکی
سے کہیں اچھا ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے.47 انسان کی جتنی ہمت ہو اتنی ہی اس کی قدر و قیمت ہے اور جتنی مروت اور جوانمردی ہوگی اتنی ہی راست گوئی ہو گی ,اور جتنی حمیت و خودداری ہو گی اتنی ہی شجاعت ہو گی اور جتنی غیرت ہوگی اتنی ہی پاک دامنی ہو گی .48 کامیابی دور اندیشی سے وابستہ ہے اور دور اندیشی فکر و تدبر کو کام میں لانے سے اور تدبر بھیدوں کو چھپاکر رکھنے سے .49 بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے کے حملہ سے ڈرتے
رہو .50 لوگوں کے دل صحرائی جانور ہیں ,جو کہ ان کو سدھائے گا ,اس کی طرف جھکیں گے
اپنی رائے کا اظہار کریں