حضوراکرم ؐ نے فرمایا:لوگوقیامت سے پہلے ایک رمضان ایساآئے گاجس میں ایک ایسی شدیدآواز آئےگی اوردنیامیں کوئی نہیں جان سکے گاکہ آواز کہاں سے آئی۔آپ ؐ نے فرمایاکہ اگررمضان میںایسی آواز سنائی دےجس کاکوئی کھوج نہیں لگایاجاسکاتوپھرایک سال کارزق اپنے گھرمیں سمیٹ کررکھ لیناکیونکہ اس کے
بعد آفتیں ٹوٹیں گی۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں ایک جماعت یومِ قیامت تک سر بلندی کے ساتھحق کے لئے بر سرِ پیکار رہے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنین کی ایک ایسی جماعت یومِ قیامت تک زندہ رہے گی مگر مندرجہ ذیل احادیث میں صراحت ہے کہ قیامت سے پہلے تمام مؤمنین کو موت آجائے گی اور قیامت کے دن کوئی مؤمن زندہ نہ ہوگا۔ ! حضرت علی ؓ سے
پوچھا گیا کہ وہ کونسا عمل ہے جس سے موت کے وقت ملک الموت انسان کی تعظیم کرتے ہیں اور اس کی روح سکون سے قبض کرتے ہیں۔ بس جیسے ہی یہ پوچھا گیا تو امام علی ؓ نےفرمایا اے شخص وہ تین عمل ہیں جو انسان یہ تین کام کرتا ہے تو فرشتہ موت اس کی تعظیم کرتے ہیں پہلا عمل کہ وہ انسان زندگی میں اپنے ماں باپ کی خدمت کرتا ہو ان کا احترام کرتا ہو۔ >دوسرا عمل کہ وہ انسان اپنی زندگی میں اللہ کی مخلوقات کو تکلیف نہ دیتا ہو۔ اپنی زبان اور ہاتھوں
سے اللہ کی مخلوق کا خیال رکھتا ہو اور تیسرا عمل کہ وہ انسان زندگی میں ہم محمد وآل محمد سے مودت کرتا ہو۔ یاد رکھنا جو انسان زندگی میں یہ تین کام کرتاہے تو مرتے وقت اس کی موت آسان ہوتی ہے اور فرشتہ موت اس کی تعظیم کرنے لگتا ہے اور یوں وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملتا ہے ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک الموت علیہ السلام سے فرمایا: کیا میری امت کو موت کی تکلیف برداشت
کرنی پڑے گی؟ تو فرشتے نے کہا جی ہاں کرنی پڑے گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ مبارک سے آنسو جاری ہو گئے. تو اللہ تعالی نے فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپکی امت اگر ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے گی تو موت کے وقت اسکا ایک پاٶں دنیا میں ہو گا اور دوسرا جنت میں۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے تو اس کو جنت میں داخل ہونے
سے موت کے سوا کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سکرات الموت میں مبتلا تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پیالہ رکھا ہوا تھا جس میں پانی تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیالہ میں اپنا ہاتھ ڈبوتے پھر اپنے چہرہ مبارک پر پھیرتے اور یہ فرماتے تھے۔ دعا (اللہم اعنی علی منکرات الموت او سکرات الموت)۔ اے اللہ موت کی
سخت دور کرنے کے ساتھ میری مدد فرما۔ موت کی سختی کے بجائے موت کی شدت فرماتے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کی سختی کو دیکھا ہے کسی کے لئے موت کی آسانی کی دعا نہیں کرتی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی بیماری کی حالت میں گیا (بیمار پرسی کے لیے) ۔ آپ کو شدید بخار تھا۔ میں نے
عرضکیا: بے شک آپ تو شدید بخار میں مبتلا ہیں۔ اورمیں نے کہا اگر ایسی حالت ہے تو پھر آپ کے لیے اجر بھی دوہرا ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں جس مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں ایسے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ جھاڑتا ہے۔اللہ پاک ہم سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے
اپنی رائے کا اظہار کریں