حضرت نوح علیہ السلام کی عمر تقریباً 950 سال تھی وہ جس جھونپڑی میں رہتے تھے وہ اتنی چھوٹی تھی کہ جب آپ سوتے تو آدھا جسم اندر اور آدھا جسم باہر ہوتا جب حضرت عزرائیل علیہ السلام روح قبض کرنے آئے تو پوچھا: آپ نے اتنے سال اس جھونپڑی میں گزار دئیے آپ چاہتے تو اچھا گھر بنا سکتے
تھے؟ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا میں نے تمہارے انتظار میں اتنا عرصہ گزار دیا۔ ملک الموت نے کہا : ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب لوگوں کی عمریں 100 سال سے بھی کم ہوں گی اور وه بڑے بڑے محل بنائیں گے اس پر حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا: (اتنی مختصر زندگی)اگر میں اس زمانے
میں ہوتا تو اپنا سر سجدے سے ہی نہ اٹھات.اللہ ُ اکبر ۔ اس نے ترکہ میں چھہ سو اشرفیاں چھوڑی ہیں مجھے میرا حق دلایا جائے‘‘۔مامون نے ذرا سکوت کیا اور دل ہی دل میں غور کیا اور حساب لگایااور کہا’’تمہارا حصہ ایک ہی اشرفی بنتا ہے‘‘۔ عورت یہ سن کر حیران رہ گئی۔ حاضرین دربار بھی تعجب کرنے لگے۔ایک عالم نے پوچھا کیوں اور کس طرح یہ ہو سکتا ہے؟مامون نے کہا’’متوفی کی دو بیٹیاں ہوں گی۔چھہ سو میں دو تہائی یعنی چار سو اشرفیاں ان کا حق
ہے۔ایک والدہ اورایک بیوی ہو گی۔والدہ کا چھٹا حصہ ہوتا ہے۔ سو اشرفیاں والدہ کی ہوئیں،آٹھواں حصہ بیوی کا ہوتا ہے۔پچھتر اشرفیاں بیوی کو ملیں۔صرف پچیس اشرفیاں بچیں۔متوفی کے بارہ بھائی ہوں گے۔یہ پچیس اشرفیاں بھائیوں اور ایک بہن میں تقسیم کی جائیں گی۔ بہن سے بھائی کا حصہ دو چند ہوتا ہے۔ہر ایک بھائی کے حصہ میں دو دو اشرفیاں اور بہن کے حصہ میں ایک اشرفی ہو گی‘‘۔جب عورت سے دریافت کیا گیا تو اس نے بتایا’’واقعی متوفی نے یہ وارث
چھوڑے ہیں‘‘۔مامون کی حساب دانی اور معاملہ فہمی پر اہل دربار دنگ رہ گئے، زیادہ سے زیادہ شیئر کریں
اپنی رائے کا اظہار کریں