جو شخص لا الہ الا اللہ کا قائل ہو

لا الہ الا اللہ

ہرچیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے ساتوں آسمان اور زمین اور جو مخلوق ان میں ہے سب اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور کوئی بھی شے ایسی نہیں جو اس کی حمد بیان کرنے کے ساتھ اس کی پاکی بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان چیزوں کی تسبیح کو سمجھتے نہیں بے شک وہ علم والا بخشنے والا ہے. سورہ بنی اس-را-

ئ-یل آیت نمبر 44 اس آیت میں اللہ عزوجل کی عظمت کا بیان ہے چنانچہ فرمایا کہ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں بسنے والی ساری مخلوق اللہ عزوجل کی حمدو ثنا اور تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے اور یاد رہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق ہے جسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنی تسبیح کا خاص طور پر حکم فرمایا ہے بلکہ انسان کو یہ بھی بتلا دیا کہ تمہارے لئے سکون اللہ ہی کے ذکر میں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ

ہے الا بذکراللہ تطمئن القلوب آگاہ رہو اللہ کی یاد رہو دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے. سورہ رعد آیت نمبر 28 معلوم ہوا کہ سکون اور اطمینان اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر میں رکھا ہے لیکن انسان دنیا کے اندر اس کو تلاش کرنے میں لگا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جتنا دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے. اتنا ہی زندگی میں ڈپریشن اور پریشانی بڑھتی چلی جاتی ہے اسی لئے ضروری ہے کہ سکونِ قلب حاصل کرنے کے لئے اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا جائے اطمینان قلب ایک بہت بڑی

نعمت ہے اسے دولت سے نہیں خریدا جاسکتا. مادیت پرستی کے دور میں انسان سکون کے لئے بے قرار ہے اس نعمت کو حاصل کرنے کاآسان طریقہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنا ہے اور اس کی یاد دل میں بسا لینا ہے اللہ کی یاد کے لئے جو کلمات بتائےجارہے ہیں وہ بہت ہی خاص ہیں اور ان کا خاص ہونا احادیث نبویہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔ روایات میں یہ واقعہ اس طرح سے بیان کی گیا ہے کہ ایک حبشی شخص نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم آپ ہم سے حسن صورت اور حسن رحم میں بھی ممتا ز ہیں اور نبوت و رسالت میں بھی اب اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لے آؤں جس پر ایمان رکھتے ہیں اور وہی عمل کروں جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کرتے ہیں تو کیا میں بھی جنت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوسکتا ہوں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں ضرور قسم ہے اس ذات کی

جس کے قبضہ میں میری جان ہے جنت میں کالے رنگ کے حبشی سفید اور حسین ہوجائیں گے اور ایک ہزار سال کی مسافت سے چمکیں گے اور جو شخص لا الہ الا اللہ کا قائل ہو اس کی فلاح و نجات اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوجاتی ہے اور جو شخص سبحان اللہ وبحمدہ پڑھتا ہے اس کے نامہ اعمال میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں یہ سن کر مجلس میں ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جب اللہ رب العزت کے دربار میں

حسنات کی اتنی سخاوت ہے تو پھر ہم کیسے ہ-ل-ا-ک ہوسکتے ہیں یا عذاب میں کیسے گ-ر-ف-تا-ر ہوسکتے ہیں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ قیامت میں بعض آدمی اتنا عمل اور حسنات لے کر آئیں گے کہ اگر ان کو پہاڑ پر رکھ دیا جائے تو پہاڑ بھی ان کے بوجھ کا تحمل نہ کر سکے لیکن ان کے ظ-ل-م کے مقابلے میں ختم ہو جائیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کو اپنی رحمت سے نواز دیں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس حبشی کے سوال اور جواب پر ہی سورۃ الدھر کی یہ آیت نازل ہوئی ھل اتیٰ علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا

اپنی رائے کا اظہار کریں