حضرت علی ؓ نے فرمایا: کون سی لڑکی شادی کیلئے بہتر ہے؟

حضرت علی ؓ

حضرت امام علی ؓ کی خدمت میں ایک شخص پیش ہوا اور عرض کرنے لگا، یا علی ؓ میں نے اپنی بیٹی کی شادی کروائی لیکن چند ہی ماہ میں وہ شادی ٹوٹ گئی آج کل لوگوں کا پتہ نہیں چلتا۔ بظاہر تو بڑے اچھے لگتے ہیں لیکن رشتے رکھنے کے بعد اصل چہرہ ظاہر ہو جا تا ہے کیا کوئی ایسا عمل نہیں جس سے ہم

شادی سے پہلے دیکھ سکیں کہ یہ لڑکا یا لڑکی شادی کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟ اس پر حضرت امام علی ؓ نے فر ما یا اگر تم اپنی بیٹی کے لیے رشتہ دیکھ رہے ہو تو تم لڑکے میں یہ دیکھو جو لوگ اس سے مر تبہ میں کم ہیں حیثیت میں کم ہیں انکی عزت انکا خیال رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر رکھتا ہے تو سمجھ جا ؤ یہ زندگی میں ایک اچھا شوہر بھی بنے گا اور اپنی بیوی کا بھی خیال رکھے گا۔ لیکن اگر جو رتبے میں اس سے بڑے ہیں ا ن کی تو عزت کر رہا ہے لیکن جو مر

تبے میں کم ہیں ان کا احسا س نہیں کر تا تو سمجھ جا نا کہ یہ انسان تمہاری بیٹی کے لیے صحیح نہیں اتنی ہی دیر میں دوسرا شخص اُٹھا اور پو چھنے لگا، یا علی ؓ اگر ہم اپنے بیٹے کا رشتہ دیکھیں تو کیسے پتہ چلے کہ لڑکی ہمارےبیٹے کے لیے صحیح ہے یا نہیں؟ اس پر حضرت علی ؓ نے فر ما یا جب اپنے بیٹے کے لیے رشتہ دیکھنے جا ؤ تو لڑکی سے چند سوال پو چھو اور تھوڑی دیر گفتگو کرو۔ اگر لڑکی صرف اپنی خوبیاں بتاتی رہے اور ہر بات پر اپنی تعریف کر

تی رہے تو سمجھ جا نا یہ لڑکی خود پسندی کے دلدل میں رفتار ہے۔ لیکن اگر لڑکی اپنے گھر والوں کی بات کر ے اپنے والدین کی بات کر ے تو وہ لڑکی آ نے والے وقت میں کسی بھی انسان کے لیے اچھی بیوی ثابت ہو سکتی ہے۔ اور اگر کوئی انسان ان دونوں اعمال کے بعد بھی گھبرانے لگے اور فیصلہ نہ کر سکے تو وہ گھر آ کے ستائیس مر تبہ سورۃ کوثر پڑھے اور سو جا ئے اگر خواب میں خوشحالی یا وہ لڑکا اچھے لباس میں نظر آ ئے یا وہ لڑکی اچھے لباس میں نظر

آ ئے، تو وہ انسان سمجھ جا ئے کہ یہ رشتہ مبارک ثابت ہو گا۔ لیکن اگر خواب میں آ گ یا ش ی ط ا ن ی مناظر، یا خ و ن یا اس لڑکی یا لڑکے کا خراب روپ دیکھے تو پھر وہ رشتہ بہتر ثابت نہ ہوگا۔ جس عورت سے نکاح کا واقعی ارادہ ہو، نکاح سے پہلے لڑکے کے لیے اُس کو کسی بہانے سے ایک نظر دیکھنے کی گنجائش ہے، تاکہ نکاح کے بعد کسی ناگواری کا اندیشہ نہ رہے، حدیث شریف سے اِس کی اجازت صراحتاً ثابت ہے اور حدیث سے صرف ایک نظر دیکھ

لینے کی اجازت ثابت ہے،تنہائی ، خلوت یا باقاعدہ آمنے سامنے بیٹھنے کا حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے،علاوہ از ایں یہ صورت نہ صرف یہ کہ بعض خاندان والوں کے لئے ناپسندیدہ ہے؛ بلکہ حیا اور غیرت کے بھی خلاف ہے۔ اگر کسی بہانے سے لڑکی کو ایک نظر دیکھنی کی صورت نہ ہو،تو گھر کی جن عورتوں پر لڑکے کو اعتماد ہے ان کو لڑکی کے گھر بھیج دیں تاکہ وہ اس کی صحیح صورت حال کا جائزہ لے کر لڑکے کو باخبر کردیں ۔

اپنی رائے کا اظہار کریں