کچھ دنوں سے میں بہت بے چین تھی ۔ بات بات پر اپنے بچوں اور شوہر سے الجھ رہی تھی ۔ دو تین بار تو شوہر سے جھگڑا بھی کر چکی تھی ۔ وہ بیچارہ شریف سا انسان میرارو یہ دیکھ کر پریشان اور الجھا سا پھر رہا تھا ۔ میں بھی کیا کرتی , سر کا درد کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ یوں لگتا تھا کہ کوئی
اندر سے ہتھوڑے مار رہا ہے ۔ کوئی کام بھی ٹھیک سے نہیں ہو رہا تھا ، نہ ہیکھانا پکایا جارہا تھا ۔ دو تین بار میری ساس نے میرے شوہر سے کہا کہ بہو کو کچھ دن کے لیے ماں کے گھر بھیج دو کام کے بوجھ سے چڑ چڑی ہو رہی ہے ، کچھ دن رہ کر آۓ گی تو ٹھیک ہو جاۓ گی ۔ لیکن شوہر کا کہنا تھا کہ بچوں کو سکول بھیجنا اور سنبھالنا میرے بس کا کام نہیں ہے اگر جانا ہے تو بچوں کو ساتھ لیتی جاۓ ۔ لیکن اصل بات تھی کہ میں امی کے گھر نہیں جانا چاہتی تھی ۔وہاں بھائیوں کی باتیں سننے سے لاکھ درجے بہتر تھا کہ میں اپنے گھر پڑی رہوں ۔ پچھلے کچھ دنوں سے رات کو نیند بھی ٹھیک سے نہیں آرہی تھی جیسے
ہی آنکھ لگتی ایسے محسوس ہوتا کہ میں گہری کھائی میں نیچے ہی نیچے گرتی جارہی ہوں ۔ ساتھ ہی میں ڈر کے اٹھ بیٹھتی تھی ۔ نہ ہی کوئی دوا اثر کر رہی تھی نہ ہی کوئی دم تعویز سے شفاہو رہی تھی ۔ اگلے دن دوپہر کے وقتمیں ایسے ہی لیٹی بے چینی محسوس کر رہی تھی کہ اچانک مجھے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا اور جسم شدید گرم ہونا شروع ہو گیا جیسے بہت تیز بخار ہو گھبراہٹ حد سے بڑھ چکی تھی ۔ میں نے اٹھ کر پانی کے چند گھونٹ پے اور تازہ ہوا لینے کے لئے مچت پر چلی گئی حالانکہ اوپر دھوپ نہ قابل برداشت تھی ۔ مگر کھلی ہوا میں آکر مجھے کچھ سکون محسوس ہوا ۔چلتی چلتی میں حچت کے
دوسرے کونے پر چلی گئی اور یوں ہی غیر ارادی طور پر ہمسایوں کے گھر میں جھانکنے لگی ۔ وہاں عجیب منظر نظر آیاد میری ہمسائی بانو جو کسی حد تک میری دوست بھی تھی ۔ صحن کے کونے میں بنے تندور کے اوپر چڑھ کر بیٹھی ہوئی تھی ۔ مگر جس بات نے مجھے چونکنے پر مجبور کر دیا وہ یہ تھی کہ بانو تندور پر بے لباس بیٹھی تھی اور پیشاب کر رہی تھی ۔میں جلدی سے پیچھے ہو گئی میرا سر پہلے ہی گھوم رہا تھا اب تو آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا کہ یہ بانو کو کیا ہو گیا ۔ بھلا تندور بھی کوئی پیشاب کرنے کی جگہ ہوتی ہے ۔ میں نے پھر تھوڑا سا آگے جا کر دیکھا تو مجھے بانو کے ہاتھ میں کپڑے
کی گڑیا نظر آئی جو کہ گیلی تھی ۔ اور اس سے پانی ٹپک رہا تھا ۔ مگر وہ پانی نہیں پیشاب تھا جو کہ میں نے اپنی آنکھوں سے بانو کو کرتے دیکھا تھا ۔پھر بانو نے وہ گڑیا تندور میں پھینک دی اور تندور میں لکڑیاں ڈال کر آگ لگادی ۔ میں چھپ کر ساری کاروائی دیکھ رہی تھی جیسے ہی تندور میں آگ بھڑ کی مجھے اپنا جسم اس آگ میں جلتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔ میں نے نیچے جانے کی کوشش کی مگر چکرا کر حچت پر ہی گر گئی ۔ جب مجھے ہوش آیارات کا وقت تھا ۔ میرا جسم بخار سے جل رہا تھا ۔ میرا شوہر بچے اور ساس میرے سرہانےبیٹھے ہوئے تھے ، ساتھ ہی ایک ادھیڑ عمر سفید داڑھی والا بزرگ بھی تھا
۔ جس کو میں نہیں جانتی تھی ۔ وہ میرے شوہر اور ساس سے پوچھ رہا تھا کہ سوچ کر بتاؤ کہ آپ کے گھر کس عورت کا آنا جانا زیادہ ہوتا ہے ، کیونکہ اس پر بہت شدید کالا جادو ہوا ہے ۔ میں علاج تو کر رہا ہوں ہوں لیکن اگر آپ مجھے کوئی اشارہ دیں گے تو میرا کام آسان ہو جاۓ گا ۔ میری ساس بزرگ کو بتارہی تھی کہ ہماری ہمسائیبانو کے علاوہ کوئی قابل ذکر خاتون نہیں جو ہماری بہو کے پاس آتی ہے ۔ بزرگ کہنے لگے کہ سوچ کر بتاؤں کیا آپ کے گھر سے وہ کچھ لے کر بھی جاتی ہے ۔ میری ساس نے لاعلمی کا اظہار کر دیا ۔ وہ بزرگ کہ رہے تھے کہ آپ کی بہو کے سر کے بال یا استعمال شدہ کپڑوں کی گڑیا بنا
کر اس پر کالا جادو کر کے جلایا جاتا ہے ، جس سے اس کو بہت تکلیف ہوتی ہے اور اپنا جسم جلتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔میری نظروں میں بانو کے ہاتھ میں پکڑی پیشاب سے بھیگی سرخ رنگ کی گڑیا گھوم رہی تھی ۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی تو بانو صفائی کے لیے میرے پاس پرانے کپڑے لینے آئی تھی اور میں نے اپنا سرخ رنگ کا سوٹ جواب میں کم ہی پہنتی تھی اس کو دے دیا تھا ۔ تو اس کا مطلب ہے کہ سرخ رنگ کی گڑیا میرے ہی سوٹ سے بنائی گئی اور میری نیکی میرے ہی گلے پڑ گئی تھی ۔ دو آنسومیری آنکھوں سے نکل کر تکیے میں جذب ہو گئے ۔ میں بات کی تہ تک پہنچ چکی تھی اگر اس دوپہر میں چھت پر نہ
جاتی تو پتہ نہیں وہ دوست نما ناگن کب تک مجھے ڈستی رہتی ۔ حالانکہ میں جانتی تھی کہ میں نے اپنے سسرال میں صرف ایک ہی لڑکی سے دوستی رکھی تھی اور وہ تھی ہماری ہمسائی بانو بغیر کسی وجہ کے میری جان کی دشمن بن گئی تھی نہ جانے یہ حسد تھا یا کچھ اورمگر اس کا وار مجھ پر چل گیا تھا ۔ میں نے بزرگ کو اس دو پہر اپنی آنکھوں سے دیکھا ایک ایک پل بتا دیا جس سے میرے علاج میں بہت آسانی ہو گئی اور میں کچھ عرصہ پیار رہ کر دن بدن تندرست ہوتی گئی ۔ اس کے بعد میں کبھی بانو سے نہیں ملی لیکن میں نے اس کو دل سے معاف کر دیا تھا یہ سوچ کر کہ اللہ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا
ہے ۔ لیکن آخر میں تمام عور تیںایک بات یاد رکھیں کہ اپنے سر کے بال اور ذاتی استعمال شدہ اشیاء بھی کسی کو نہ دیں ورنہ شاید آپ کو پچھتانے کا موقع بھی نہ ملے ۔ کیونکہ یہ دنیا انسان نماز ہر یلے سانپوں سے بڑی پڑی ہے ۔ کیونکہ آجکل کوئی بھی ایک انسان دوسرے انسان کو خوش نہیں دیکھنا چاہتا ۔ یہی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ہمارے پاس آ جاۓ ۔
اپنی رائے کا اظہار کریں