اللہ تعالی نے فرمایا ” اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو “تشریح: اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس شخص کے بارے میں صبر کا حکم دے رہے ہیں جو تنگ دستی کی وجہ سے قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا پ
ھر اس کو قرض معاف کرنے کی تلقین کر رہے ہیں اور اس پر بھلائی اور بہت زیادہ اجر و ثواب دینے کا وعدہ کر رہے ہیں پس فرمایااگر تم صدقہ کردو تو تمہارے لیے بہتر ہے۔ ” یعنی اگر اصل مال بھی بالکل چھوڑ دو اور مقروض کو معاف کردو۔ (تو یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے) ابن کثیر اور مفسرین امام طبری اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اگر چہ یہ ہدایت سودی قرض معاف کرنے کے بارے میں اتری ہے لیکن سارے قرضوں کا یہی حکم ہے کیونکہ تنگی و مجبوری والا معنی سب میں موجود ہے۔ پس جب مقروض تنگ حضرتِ ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔ کہ آپﷺ نے ارشادفرمایا: ’’ایک تاجر، لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ پھر جب دیکھتا کہ کوئی محتاج ہے، تو اپنے غلاموں سے کہتا ، اس کو معاف کردو۔ شاید اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم کو بھی معاف کردے۔آخر ( جب وہ مرگیا تو) اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کو بخش دیا‘‘۔ اور مسلم شریف اور نسائی شریف میں بھی اسی طرح ہے۔ اور نسائی شریف کی ایک روایت میں ہے:
’’ایک آدمی نے کبھی بھی کوئی نیکی کا کام نہیں کیا تھا، اور وہ تاجر تھا۔ پس وہ اپنے ملازم سے کہتا کہ مقروض سے وہی لے لو، جو وہ آسانی سے ادا کرسکتا ہے۔ اور جو ادا نہ کر سکے، اس کو چھوڑ دو شاید کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں معاف کردے۔ پس جب وہ فوت ہوگیا، تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس سے پوچھا۔ کہ کیا تو نے کبھی نیکی کا کام بھی کیا تھا؟۔ اس نے کہا، نہیں۔ سوائے اس کے کہ میرا ایک غلام تھا اور میں لوگوں کو قرض دیتا تھا۔ پس جب میں اپنے غلام کو قرض لینے کے لیے بھیجتا۔ تو اس کو کہتا تھا، جو کوئی آسانی سے ادا کرے، اس سے وہی لے لو، اور جو ادا نہ کرسکے اس کو چھوڑ دو اور معاف کردو۔ شادید کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں معاف کر دے۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمایا میں نے تجھے معاف کیا‘‘۔حضرتِ عبداللہ بن قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرتِ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے مقروض کو طلب کیا، تو وہ ان سے چھپ گیا۔ پھر و ملا تو اس نے کہا میں تنگ دست ہوں۔ تو انہوں نے کہا کیا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قسم اٹھاتا ہے؟۔ اس نے کہا: میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قسم اٹھاتا ہوں۔ تو حضرتِ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا
: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ جس کو یہ بات پسند ہو، کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کو قیامت کی پریشانیوں سے نجات دے۔ تو اس کو چاہیے کہ وہ تنگ دست کو مہلت دے دے، یااس کے قرض کو معاف ہی کردے‘‘۔ حضرتِ محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں۔کہ حضرتِ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کسی آدمی سے قرض لینا تھا۔ جب وہ اس سے قرض لینا تھا، جب وہ اس سے قرض طلب کرنے کے لیے آتے تو وہ ان سے چھپ جاتا، ایک دن آئے تو اس (مقروض) کا بچہ باہر آیا، انہوں نے اس سے اس کے باپ کے متعلق پوچھا۔ تو اس نے کہا، ہاں وہ (میرا باپ) گھر میں موجود ہے۔ اور خزیر (چربی اور آٹے کا سوپ) کھا رہا ہے۔ تو حضرتِ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس کو بلایا کہ اے فلاں! باہر آ۔ مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ تو یہاں موجود ہے۔ پس وہ ان کے پاس باہر آیا۔ تو حضرتِ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کون سی چیز تجھے مجھ سے چھپاتی ہے؟۔ اس نے کہا میں تنگ دست ہوں میرے پاس مال نہیں حضرتِ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی قسم اٹھاکر کہتا ہے کہ تو تنگ دست ہے؟۔ تو اس نے کہا
۔ ہاں۔ تو حضرتِ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ رونے لگے؟۔ پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سا: ’’ جس نے اپنے مقروض کو مہلت دی یا س کا قرض معاف ہی کردیا، تو وہ قیامت کے دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے عرش کے سائے میں ہوگا‘‘۔دست غریب ہوجائے تو اس کو مہلت دینی ضروری ہے اور اس کو مارنا اور قید کرنا جائز نہیں
اپنی رائے کا اظہار کریں