دین اسلام انسانی زندگی کے تمام تقاضے بحسن وخوبی پورا کرتا ہے بلکہ زندگی کے تمام امور کےلئےپاکیزہ اصول اور فطری نظام پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالی حق بات کہنے سے نہیں شرماتا، اس نے ہمیں اپنے پیغمبر کے ذریعہ زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات بتلادی۔ نکاح اور بیوی سےجماع
شرمگاہ کی حفاظت کے ساتھ افزائش نسل کا سبب ہے پھر اللہ اتنی بڑی بات کیسے نہیں بتلاتا، یہ بھی ہمیں بتلادیا۔آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں برائی فیشن اوربے حیائی عام سی بات ہوگئی ہے۔ اللہ نے ہمیں کفر وضلالت سے نجات دے کر ایمان وہدایت کی توفیق بخشی ہے، ہمیں ہمیشہ اپنا قدم بڑھانے سے پہلے سوچنا ہےکہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہورہی ہے، ہرہرقدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہے۔ پیدائش کے بعد جب کوئی جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتا ہے تو اسے فطری سکون حاصل کرنے کے لئے شریک حیات کی ضرورت پیش آتی ہے، اسلام نے شریک حیات بنانے کےلئے نکاح کا پاکیزہ نظام پیش کیا ہے۔ نکاح
سے انفرادی اور سماجی دونوں سطح پہ فساد وبگاڑ کا عنصر ختم ہوجاتا ہے اور گھر سے لیکر سماج تک ایک صالح معاشرہ کی تعمیر ہوتی ہے۔ نکاح کرکے دو اجنبی آپسی پیار ومحبت میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں جہاں اجنبیت عنقا اور اپنائیت قدیم رشتہ نظر آتا ہے۔میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس بن جاتےہیں، پاکیزہ تعلق یعنی عقد نکاح کے بعد آپس کی ساری اجنبیت اور سارا پردہ اٹھ جاتا ہے گویا دونوں ایک جاں دو قالب ہوجاتے ہیں۔ یہ اللہ کا بندوں پر بڑا احسان ہے۔ میاں بیوی کے جنسی ملاپ کو عربی میں جماع اور اردو میں ہمبس تری سے تعبیر کرتے ہیں۔ جس طرح اسلام نے نکاح کاپاکیزہ نظام دیا ہے اسی طرح جماع
کےبھی صاف ستھرےرہنما اصول دئے ہیں، ان اصولوں کی جانکاری ہر مسلم مردوخاتون پر ضروری ہے۔ سطور ذیل میں جماع کا طریقہ اور اس سے متعلق آداب ومسائل بیان کررہاہوں۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ بیوی کی اگلی شرمگاہ میں پیچھے سے جماع کرنے سے لڑکا بھینگا پیدا ہوگا، اللہ نے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ (البقرة:223) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بیوی کی اگلی شرمگاہ میں جس طرح سے چاہیں جماع کرسکتے ہیں، شوہر کے لئے بیوی کی اگلی شرمگاہ ہی حلال ہے اور پچھلی شرمگاہ میں وطی کرنا حرام ہے چنانچہ اس بات کو اللہ نے اس آیت سے پہلے بیان
کیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة:222) ترجمہ:آپ سے ح ی ض کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے کہ وہ گندگی ہے حالت ح ی ض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ یہاں پر اللہ حکم دے رہا ہے کہ ح ی ض کی حالت میں بیوی سے جماع نہ کرو اور جب ح ی ض سے
پاک ہوکر غسل کرلے تواس کے ساتھ اس جگہ سے جماع کرو جس جگہ جماع کرنے کی اجازت دی ہے۔ ح ی ض اگلی شرمگاہ سے آتا ہے، ح ی ض کا خو ن آنے تک جماع ممنوع ہےا ور جب ح ی ض بند ہوجائے تو اسی جگہ جماع کرنا ہےجہاں سے خو ن آرہا تھا۔ ” نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ” کی تفسیر صحیح احادیث سے بھی ملاحظہ فرمالیں تاکہ بات مزید واضح ہوجائے۔راوی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی : (نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أنَّى شِئْتُمْ)أي مُقبِلاتٍ ومُدبِراتٍ ومُستَلقِياتٍ يعني بذلِكَ مَوضعَ الولَدِ(صحيح أبي داود:2164) ترجمہ: تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں لہذا تم جس طریقے سے چاہو
ان سے جماع کرو یعنی خواہ آگے سے خواہ پیچھے سے خواہ لٹا کر یعنی اولاد والی جگہ سے۔ ایک دوسری روایت میں ابن عباس ہی سے مروی ہے۔ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ أقبِلْ وأدبِرْ، واتَّقِ الدُّبرَ والحَيضةَ(صحيح الترمذي:2980) ترجمہ:تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں لہذا تم جس طریقے سے چاہو ان سے جماع کرو خواہ بیوی سے آگے سے صحبت کرو چاہے پیچھے کی طرف سے کرومگر پچھلی شرمگاہ سے بچو اور ح ی ض کی حالت میں جماع کرنے سے بچو۔ آج کے پرفتن دور میں میاں بیوی کو اسلام کی یہ بات جاننی چاہئے اور اسے ہی عملی زندگی میں نافذ کرنا چاہئے، جولوگ فحش ویڈیوز دیکھ
کر غلط طریقے سے منی خارج کرتے ہیں اس کی زندگی سے حیا نکل جاتی ہے، لمحہ بہ لمحہ بے حیائی کی راہ چلنے لگتا ہے۔یاد رکھیں، بیوی سے اسلامی طریقے سے جماع کرنا بھی باعث ثواب ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : وفي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، قالوا: يا رَسولَ اللهِ، أَيَأتي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ وَيَكونُ له فِيهَا أَجْرٌ؟ قالَ: أَرَأَيْتُمْ لو وَضَعَهَا في حَرَامٍ أَكانَ عليه فِيهَا وِزْرٌ؟ فَكَذلكَ إذَا وَضَعَهَا في الحَلَالِ كانَ له أَجْرٌ.(صحيح مسلم:1006) ترجمہ: اور(بیوی سے جماع کرتے ہوئے) تمہارے عضو میں صدقہ ہے۔صحابہ کرام ﷺ نے پوچھا:اے اللہ کے رسول ﷺ !ہم میں سے کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے تو کیا ااس میں بھی اجر ملتا ہے؟آپ ﷺ نے
فرمایا:بتاؤاگر وہ یہ(خواہش) حرام جگہ پوری کرتا تو کیا اسے اس گنا ہ ہوتا؟اسی طرح جب وہ اسے حلال جگہ پوری کرتا ہے تو اس کے لئے اجر ہے۔ اب نیچے جماع کے چندآداب و مسائل ذکر کئے جاتے ہیں۔ (1) بیوی سے جماع عفت وعصمت کی حفاظت، افزائش نسل اور حرام کام سے بچنے کی نیت سے ہو، ایسی صورت میں اللہ نہ صرف جماع پہ اجر دےگا بلکہ نیک اولاد سے بھی نوازے گااوردنیاوی واخروی برکتوں سے نوازے گا۔ (2) جماع شہوت رانی نہیں ہے بلکہ زوجین کے لئے سکون قلب اور راحت جاں ہے، اس لئے قبل از جماع شوہر بیوی سے خوش طبعی کی بات کرے اور جماع کے لئے ذہنی طور پر اور
جسمانی طور پر راضی کرے۔ (3) جماع سے قبل یہ دعا پڑھنا مسنون ہے : بسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وجَنِّبِ الشَّيْطَانَ ما رَزَقْتَنَا(صحيح البخاري:3271) ترجمہ:اے اللہ!ہمیں شیطان سے علیحدہ رکھ اور تو جو اولاد ہمیں عنایت فرمائے اسے بھی شیطان سے دور رکھ۔ “پھر اگر انھیں بچہ دیا گیا تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔ (4) جماع کی جگہ آواز سننے والا اور دیکھنے والا کوئی نہ ہو یعنی ڈھکی چھپی جگہ ہواور جماع کی حد تک شرمگاہ کھولنا کافی ہے تاہم ایک دوسرے کو دیکھنا اور مکمل برہنہ ہونا آپس میں جائز ہے، جس حدیث میں مذکور ہے کہ جماع کے وقت بیوی کی شرمگاہ دیکھنے سے
اندھے پن کی بیماری لاحق ہوتی ہے اسے شیخ البانی نےموضوع حدیث قراردیاہے۔ اوراسی طرح وہ ساری احادیث بھی ضعیف ہیں جن میں مذکور ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ ﷺ نے کبھی ایک دوسرے کی شرمگاہ نہیں دیکھیں۔ (5) بحالت احرام اور بحالت روزہ جماع ممنوع ہے، باقی دن ورات کے کسی حصے میں جماع کرسکتے ہیں۔ حالت ح ی ض اور حالت نفاس میں صرف جماع کرنا منع ہےمگر جماع کے علاوہ بیوی سے لذت اندوز ہونا جائز ہے۔ اگر کسی نے ح ی ض کی حالت میں جماع کرلیا تو ایک دینا ر یا نصف دینا صدقہ کرنا ہوگا ساتھ ہی اللہ سے سچی توبہ کرے تاکہ آئندہ اللہ کا حکم توڑ کر
معصیت کا ارتکاب نہ کرے۔ یہی حکم نفاس کی حالت میں جماع کا ہے البتہ صحیح قول کی روشنی میں مستحاضہ سے جماع کرنا جائز ہے۔ 6) بیوی کی اگلی شرمگاہ میں جماع کرنا ح ی ض ونفاس سے پاکی کی حالت میں جائز ہے اورجماع کرنے کے لئے بیوی سے بوس وکنار ہونا، خوش طبعی کرنا، جماع کے لئے تیار کرنے کے واسطے اعضائے بدن بشمول شرمگاہ چھونا یا دیکھنا جائز وحلال ہے۔ پھر اگلی شرمگاہ میں جماع کے لئے جو کیفیت وہیئت اختیار کی جائے تمام کیفیات جائز ہیں۔ یاد رہے جماع کی خواہش بیدار ہونے اور اس کا مطالبہ کرنے پر نہ شوہربیوی سے انکار کرے اور نہ ہی بیوی شوہر سے انکار کرے۔
(7) شوہر کے لئے بیوی کی شرمگاہ چھونے اور دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسے چومنا بے حیائی ہے۔ اسی طرح بیوی کے لئے مرد کی شرمگاہ چھونے اور دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مگر اسے چومنا اور منہ میں داخل کرنا بے حیائی ہے۔ ان دو باتوں کا ایک جملے میں خلاصہ یہ ہے کہ عورت کی شرمگاہ چومنا اور منہ سے سیکس(اورل سیکس) کرنا سراپابے حیائی ہے اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے خلاف ہے۔ (8) میاں بیوی کا ایک دوسرے سے غیرفطری طریقے سے منی خارج کروانا بھی متعددجسمانی نقصانات کے ساتھ بے حیا لوگوں کا راستہ اختیار کرنا ہے، مومن ہر کام میں حیا کا پہلو مدنظر
رکھتا ہے۔ عموما شوہر اپنی بیوی کو غیرفطری طریقہ مباشرت اپنانے اور بے حیائی کا اسلوب اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے ایسی عورت کے سامنے عہد رسول کی اس انصاری عورت کا واقعہ ہونا چاہئے جس کے قریشی یعنی مہاجرشوہر نے اس سے اپنے یہاں کے طریقہ سے مباشرت کرنا چاہاجوانصاری کے یہاں معروف نہ تھا تو اسکی بیوی نے اس بات سے انکار کیا اور کہا ہم صرف ایک ہی انداز سے جماع کے قائل ہیں لہذا وہی طریقہ اپناؤ یا مجھ سے دور رہو۔ یہاں تک کہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گئی اور اس وقت قرآن کی آیت (نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أنَّى شِئْتُمْ) نازل ہوئی جس کی تفسیر اوپر گزرچکی ہے۔
واقعہ کی تفصیل دیکھیں: (صحيح أبي داود:2164) (9) نبی ﷺکا فرمان ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کی دبر میں آتاہے،وہ ملعون ہے(صحیح ابی داؤد:2162)۔لہذا کوئی مسلمان لعنتی کام کرکے خود کوقہر الہی کا سزاوار نہ بنائے۔ کسی سے ایسا گھناؤنا کام سرزد ہوگیا ہو تو وہ فورا رب کی طرف التفات کرے اور اللہ سے توبہ کرکے گنا ہ معاف کرالے۔جہاں تک لوگوں کا یہ خیال کرنا کہ بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنے سے نکاح باطل ہوجاتا ہے سو ایسی بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (10) ایک ہی رات میں دوبارہ جماع کرنے سے پہلے اگر میسر ہو تو غسل کرلیا جائے، یا وضو کرلیا جائے۔ بغیر وضو
کے بھی دوبارہ جماع کرسکتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ ایک غسل سے کئی ازواج سے مباشرت فرماتے تھے۔ (11) مرد کی شرمگاہ عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونے سے عورت ومرد دونوں پر غسل واجب ہوجاتا ہے چاہے منی کا انزال ہو یا نہ ہو۔ حالت جنابت میں سویا جاسکتا ہے تاہم فجر سے پہلےیا جو وقت ہواس نماز کے واسطے غسل کر لےتاکہ بلاتاخیر وقت پہ نماز پڑھ سکے۔ حالت جنابت میں قرآن کی تلاوت نہیں کرسکتے مگرذکرو اذکار، دعاوسلام، کام کاج، بات چیت،کھاناپینا سب جائز ہیں حتی کہ سحری بھی کھاسکتے ہیں۔ (12)جب جماع کی حالت میں اذان ہونے لگے یا اقامت کی آواز سنائی دے تو اس عمل کو
جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں تاہم اس سے جلد فراغت حاصل کرکے اور غسل کرکے نمازادا کریں۔یاد رہے اذان سننے کے بعد بھی قصدا بستر پر لیٹے رہنا حتی کہ اقامت ہونے لگے تب جماع کرنا ہماری کوتاہی اور نماز سے غفلت ہے۔جہاں تک اذان کے جواب کا مسئلہ ہے تو یہ سب پر واجب نہیں بلکہ فرض کفایہ اوربڑے اجر وثواب کا حامل ہے اس لئے میاں بیوی سے بات چیت یابوس وکنار کے دوران جواب دینا چاہیں تو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جماع کے وقت اذان کا جواب دینے سے علماء نے منع کیا ہے، جب اس عمل سے فارغ ہوجائیں تو بقیہ کلمات کا جواب دے سکتے ہیں۔ (13) اولاد کے درمیان
ضرورت کے تحت وقفہ کرنے کی نیت سے جماع کرتے ہوئے منی شرمگاہ کے باہر خارج کرنا جائز ہے، شوقیہ ایسا کرنے سے بہرصورت بچنا چاہئے کیونکہ نکاح کا اہم مقصد افزائش نسل ہے۔ (14) میاں بیوی کی خلوت اور جماع کی باتیں لوگوں میں بیان کرنا بے حیا ئی کی علامت ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس عمل سے امت کو منع فرمایا ہے۔ اس بات سے ان بے حیاؤں کو نصیحت لینا چاہئے جو جماع کی تصویر یا ویڈیو بناتے ہیں پھراسے لوگوں میں پھیلاتے ہیں۔ نعوذباللہ کتنے ملعون ہیں فحش ویڈیوز بنانے، پھیلانےاوردیکھنے والے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : كلُّ أمَّتي مُعافًى إلَّا المُجاهِرينَ، وإنَّ منَ المُجاهرةِ أن يعمَلَ الرَّجلُ
باللَّيلِ عملًا، ثُمَّ يصبِحَ وقد سترَه اللَّهُ، فيقولَ : يا فلانُ، عمِلتُ البارحةَ كذا وَكذا، وقد باتَ يسترُه ربُّهُ، ويصبِحُ يَكشِفُ سترَ اللَّهِ عنهُ( صحيح البخاري:6069) ترجمہ:میری تمام امت و معاف کردیا جائے گا مگر جو اعلانیہ گنا ہ کرتے ہیں۔ علانیہ گنا ہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص رات کے وقت گنا ہ کرتا ہے باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گنا ہ پر پردہ ڈالا ہوتا ہے لیکن صبح ہوتے ہی وہ کہنے لگتا ہے: اے فلاں! میں نے رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گنا ہ چھپا رکھا تھا جب صبح ہوئی تو وہ خود پر دیےگئے اللہ کے پردے کھو لنے لگا۔ اللہ تعالی ہمارے اندر اسلامی غیرت
وحمیت پیدا کردے، حیا کی دولت سے مالامال کردے، بے حیائی سے کوسوں میل دور کردے اور مرتے دم تک اسلام کی پاکیزہ تعلیمات پہ اخلاص کے ساتھ عمل کرتے رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین
اپنی رائے کا اظہار کریں