دوستوں ایک صاحب اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ چند دن پہلے کی بات ہے کہ میری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا. تمہیں راستے میں آنے والی ٹائر ورکشاپ پر رک گیا رات کے دس بج چکے تھے اس وقت ایک ہی لڑکا گاڑی کے ٹائر کو پنکچر لگانے کے لیے موجود تھا اور مجھ سے پہلے وہاں پر ایک ہی بندہ موجود تھا جس کی کار کا پنکچر لگایا جا رہا تھا. میں اس دوران گاڑی سے نکل کر وہاں موجود کرسیوں پر بیٹھ گیا.
پنکھے کی دکان کا بوڑھا مالک پہلے سے وہاں بیٹھا بھوکا پی رہا تھا. حقہ دیکھتے ہی میری طبیعت بے چین ہوگئی. اور میں نے بے تکلفی سے کہا وہاں انکل مزہ آگیا. میں نے اس کے حقے کو دیکھتے ہوئے کہا کیا میں بھی سوٹا لگا لوں? وہ ہنس کر بولا سات بسم اللہ. اس نے حقہ مجھے تھما دیا اور میں نے پہلا ہی کش لگایا تھا کہ کھانس کا دورہ پڑ گیا. وہ کہنے لگا پتر جی حقہ پینا مزدوروں کا کام ہے یہ کوئی سگریٹ نہیں ہے. حقے کے لیے پھیپھڑوں میں جان ہونی چاہیے. اب کون سی جان انکل جی? میں نے کہا میری بات سمجھ گیا. واقعی پہلے والی خوراکیں اور ورزشیں کہاں پتر جی? اس کی عمر اسی سال سے زیادہ
تھی. گھنی اور بھاری مونچھیں سینہ چوڑا بدن کثرتی تہبند پہنا ہوا تھا وہ بار بار ایک لفظ بولتا. اللہ دی شانہ دیکھو. لگتا تھا کہ یہ اس کا تکیہ کلام تھا. اس سے بے تکلفی شروع ہو گئی. اور پرانا زمانہ یاد کرنے لگے دیسی لوگوں کی دیسی باتیں باتوں کی باتوں میں اس نے مجھے ایک حیران کن واقعہ سنا دیا. انتہائی ناقابل یقین واقعہ جسے سن کر کوئی بھی یقین نہ کرتا یہ واقعہ اسی کی زبانی سنیے. وہ بوڑھا کہتا ہے کہ میں اس وقت دس سال کا تھا. سمجھ لو کہ ستر سال پہلے کی بات ہے. میرے باپ دادا سرگودھا کے رہنے والے تھے. رب دیا شانہ دیکھو. میرے گدھے کی عمر اس وقت سو سال تھی جب اس نے مجھے یہ واقعہ
سنایا تھا. واقعہ یہ تھا کہ اس علاقے کے زمینداروں نے اپنی زمین پر کنواں کھودنے کے لیے کچھ مزدور بلائے جو کھیتوں میں کئی اس کا کنواں کھودتے رہ کنواں کافی گہرا ہو گیا اور پانی نکلنے کے قریب تھا کہ اچانک ایک روز کنویں کے ایک جانب سے مٹی کھسک کر کنویں میں گر گئی اور ایک مزدور اس دب گیا. باقی مزدوروں نے شور مچایا. منظور مٹی تلے دب گیا ہے. مٹی نکال کر اس مزدور کو نکالنے کی کوشش کی گئی لیکن جب کافی کھودائی کرنے کے باوجود منظور نامی مزدور نہ ملا تو انہیں لگا کہ شاید انہیں مغالطہ لگ گیا ہے. وہ مزدور کہیں چلا نہ گیا ہو. اس لیے انہوں نے کنویں میں مٹی ڈال کر اسے
دوبارہ بند کر دیاکیونکہ اب اس جگہ پر کنواں کھودا نہیں جا سکتا تھا اور نہ اس کو خالی چھوڑا جا سکتا تھا کہ کوئی انجانے میں اس میں گر کر ہلاک نہ ہو جائے. یوں ہی زندگی کا پہیہ چلتا رہا. تیس سال بعد وہ زمیندار فوت ہو گیا. تو اس کی اولاد نے کافی زمینیں بیچ ڈالی. نئے لوگ آئے تو انہوں نے زمینیں آباد کرنے کے لیے فصلیں کاشت کرنا شروع کر دیں. تو انہیں بھی ایک کنواں کھو کی ضرورت پیش آئی. اتفاق سے انہوں نے اسی جگہ پر کنواں کھودنا شروع کر دیا. یہ وہی جگہ تھی جہاں پہلے کنواں کھودا جا چکا تھا. اور ایک سانحہ رونما ہوا تھا. مزدور جب کافی گہرائی تک کنواں کھود چکے تو اچانک انہیں دھوتی
کا کپڑا ملا تو وہ حیران ہوگئے کہ اس گہرائی میں یہ دھوتی کیسی? دوسرے مزدور بھی پریشان تھے. مالکان کو بلایا گیا کہ کھودائی کے دوران کنویں سے دھوتی ملی ہے انہوں نے مزدوروں سے کہا کہ وہ احتیاط سے کھودائی کریں تاکہ دیکھا جائے کہ اگر یہ دھوتی کسی انسان کی تھی تو باقی چیزیں بھی اس کی ہیں یا نہیں? اس وقت تک کسی معلوم نہیں تھا کہ اس جگہ پر پہلے کبھی کنواں کھود کر بند کیا جا چکا ہے. مزدوروں نے انتہائی احتیاط کے ساتھ ہاتھوں اور بیلچوں سے کھودائی جاری رکھی تو اچانک کنویں کے ایک ایک چھوٹی سی سوراخ نمودار ہوئی جس میں کوئی انسان لیٹا ہوا تھا ان کی چیخیں نکل گئیں.
کیونکہ وہ انسان زندہ تھا اس کی سفید داڑھی اس کی ناف تک بڑی ہوئی تھی اور سر کے بال چہرہ چھپا ہوا تھا. پہلے تو وہ یہ سمجھے کہ شاید یہ کوئی جن بھوت ہے. لیکن جب مزدوروں نے مالکان کے ساتھ مل کر اس انسان کو ہاتھ لگایا تو اس کے پورے بدن کا گوشت پلپلا ہو چکا تھا اس نے جب اتنے انسانوں کو دیکھا تو بے ہوش ہو گیا. اسے کنویں سے باہر نکالا گیا اور پورے گاؤں میں یہ بات پھیل گئی. کسی سمجھدار آدمی نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ اس کو روئی میں دیں. کیونکہ اس انسان سے ہوا اور موسم برداشت نہیں ہوگا. کیونکہ نہ جانے یہ پتہ نہیں کب سے یہاں پڑا ہوا تھا اس کو دس دن تک انتہائی نگہداشت میں رکھا
گیا. روئی میں دودھ لگا کر اس کو ہٹایا جاتا رہا. دس دن کے بعد جب وہ انسان کافی ہوش میں آگیا. تو اس نے انکشاف کیا کہ بہت عرصہ پہلے یہاں کنواں کھودتے ہوئے وہ مٹی تلے دب گیا تھا. پرانے لوگوں سے جب پوچھ گچھ کی گئی تو ان میں سے ایک مزدور مل گیا جو اس وقت حادثے کے وقت موجود تھا اس نے تصدیق کی کہ ہاں ایسا واقعہ ہوا تھا اور ایک منظور حسین نامی مزدور لاپتہ ہو گیا تھا. لیکن آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پینتیس سال تک مٹی تلے دبا ہوا انسان زندہ ہو. زندہ رہنے کے لیے تو ہوا پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے. یہ بڑا حقیقت پسندانہ تھا کہ آخر بنا خوراک کے بنا ہوا اور پانی کے کوئی
شخص کیسے زمین کی تہہ میں زندہ رہ سکتا ہے? اس آدمی نے سنا تو کہا میں ہی منظور حسین ہوں بس یہ میرے سوہنے اللہ کی شان ہے کہ وہ پتھروں میں بھی مجھ کو رزق پہنچاتا تھا. وہ منوں ہزاروں مٹی تلے بھی مجھے خوراک پہنچاتا تھا. مجھے نہیں معلوم کہ میں سال تک منوں مٹی تلے دبا رہا. لیکن ایک بات کا مجھے علم ہے کہ میں کبھی بھوکا نہیں سویا اور نہ ہی مجھے کوئی وقت گزرنے کا علم ہے میں روزانہ دیکھتا تھا کہ ایک گائے صبح سو آتی. اور اپنے تن میرے سامنے کر دیتی. میں اس کے تنوں کو منہ لگا کر دودھ پی لیتا تھا.
اپنی رائے کا اظہار کریں