وہ پیغمبر علیہ اسلام جن کی قبر مبارک پاکستان میں موجود ہے –

پاکستان

جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک سعودی عرب میں ہیں، اسی طرح مختلف پیغمبروں کے روزے مبارک دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں۔ ان میں سر فہرست فلسطین، عراق اور ایران وغیرہ ہیں۔ آپ کو شاید یہ نہ معلوم ہو کہ پاکستان میں بھی ایک پیغمبر علیہ السلام کی قبر مبارک

موجود ہیے۔ ان کا نام حضرت حام علیہ السلام ہے، جو کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔ ان کا روضہ مبارک غریبوالا گاوُں، ضلع جہلم، صوبہ پنجاب، پاکستان میں موجود ہیں۔ ان کی قبر مبارک کی لمبائی ترقی تقریبا 78 فٹ ہے حضرت حام علیہ السلام کی کی نسل زیادہ تر افریقہ اور اور کچھ ایشیاء میں بس رہے ہیں۔ حضرت حام علیہ السلام کے مزار کی نشاندہی 1891 میں کی گئی۔ یہن نشاندہی حافظ شمس الدین دین نے کی، جو کہ گلہیانہ، ضلع گجرات کے تھے۔

ضلع جہلم کی تحصیل پنڈ دادن خان کے ایک گائوں روال میں کوہ نمک کے پہاڑوں کے سائے تلے، ایک 78 فٹ لمبی قبر موجود ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت نوحؑ کے بیٹے حضرت حامؑ کی ہے، جو اللہ کے نبی تھے اور ہندوستان میں بسنے والی قوم دراوڑ کے جد امجد کہلاتے ہیں۔ اس قبر کے بارے میں سب سے پہلے انکشاف گجرات کے ایک قصبے گلیانہ کے رہنے والے معروف صوفی بزرگ اور کشف قبور پر عبور رکھنے والے حافظ محمد

شمس الدین گلیانوی نے 1891ء میں کیا اور انہوں نے اسی وقت اس قبر کو پختہ کرایا تھا۔ بعد ازاں اس مزار کو حاجی فرمان علی مستری نے 1994ء میں پختہ کرایا اور اس کے اردگرد چار دیواری بنائی گئی۔ حافظ شمس الدین نے اپنے قلمی نسخے انوارالشمس میں اس مزار مبارک کو بہت بابرکت قرار دیا ہے۔ یہ قلمی نسخہ گجرات میں ان کے خاندان کے پاس آج بھی محفوظ ہے۔ بعد ازاں اس مزار کے حوالے سے ایم زمان ایڈووکیٹ نے جن کا تعلق گجرات سے ہے، اپنی کتب

میں میں لکھا۔ اگرچہ اس مزار کی ان دو افراد یعنی حافظ شمس الدین اور ایم زمان ایڈووکیٹ کے علاوہ کسی اور نے تاریخی طور پر تصدیق نہیں کی، لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ نسل در نسل یہ قبر اسی طرح اس پہاڑی سلسلے سے متصل جنگل میں موجود ہے۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ کی ٹیم نے روال گائوں جاکر حضرت حامؑ کی قبر کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی اور وہاں کے لوگوں سے اس مزارکے بارے میں معلومات حاصل کیں، جو قارئین کی

خدمت میں پیش کی جارہی ہیں۔ راولپنڈی سے دو سو کلومیٹر دور پنڈ دادن خان کے قریب ایک قصبہ دھریالہ جالپ ہے۔ یہاں سے ایک سڑک روال گائوں کو جاتی ہے۔ یہی سڑک غریب وال سیمنٹ فیکٹری کو بھی ملاتی ہے۔ اس پر کچھ آٹھ کلومیٹر دور روال گائوں اور اس کا قبرستان بھی ہے ،جس کیلئے اسی سڑک سے ایک کچا روڈ پیر دھمرانی گائوں کی طرف جاتا ہے، جس کے راستے میں گھنے جنگل اور پہاڑی چشموں کے قریب قدیم موضع روال کا قبرستان ہے اور

اسی میں یہ مزار موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ وہاں کے بارے میں مزید بات کی جائے، طوفان نوح اور خطۂ پوٹھوہار کے بارے میں جان لیا جائے کہ اس کی تاریخ کیاکہتی ہے، اور کیا یہ ممکن ہے کہ یہاں حضرت نوحؑ کے بیٹے حضرت حامؑ کی آمد ہوئی ہو؟ اس بارے میں معروف محقق اور تاریخ دان سجاد اظہر کا کہنا ہے کہ ’’خطۂ پوٹھوہار کی تہذیب زمین پر جانداروں کی ابتدائی زندگی کے بارے میں سب سے اولیت رکھتی ہے۔ چین، پوٹھوہار اور فرانس کے کچھ

علاقے دنیا کی قدیم ترین تہذیب کہلاتے ہیں اور ان میں سے پوٹھوہار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سب سے پہلے انسان نے آسمان کو دیکھا۔ یعنی اس سے قبل وہ بڑے جانوروں کے خوف سے غاروں میں چھپا رہتا تھا۔ پوٹھوہار کے غاروں سے جو انسانی ہڈیاں ملی ہیں، تحقیق کے مطابق وہ لاکھوں برس پرانی ہیں۔ اس وقت انسان گوشت نہیں کھاتا تھا۔ روشنی سے گھبراتا اور رات کو جنگلی پھل توڑ کر پھر غاروں میں بھاگ جاتا تھا۔ اس وقت انسان کا قد اتنا لمبا

ہوتا تھا کہ وہ آسانی سے درختوں سے پھل توڑ لیتا تھا۔ اب تو جدید سائنس بھی یہ کہتی ہے کہ انسان کا قد مسلسل چھوٹا ہوتا رہا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہیں خطۂ پوٹھوہار میں ہی انسان نے دو قدموں پر چلنا شروع کیا۔ زمین پر ہر دس ہزار سال بعد تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ روایت میں ہے کہ طوفان نوح کے بعد جب زمین پر پانی اترنا شروع ہوا تو سب سے پہلے کوہ قراقرام اور کوہ ہمالیہ کے پہاڑ پانی سے باہر آئے۔ طوفان نوح کے بعد ہی زمین کی نئی فارمیشن کی گئی

اور اس کے مطابق براعظم وجود میں آئے‘ ‘۔ سجاد اظہر کا کہنا تھا کہ ’’طوفان نوح کے بعد جب براعظم وجود میں آئے تو خطۂ پوٹھوہار سے ریڈ انڈینز ہجرت کر کے امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کی جانب گئے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’پوٹھوہار کسی دور میں سمندر کے کنارے پر واقع تھا اور دنیا کا سب سے بڑا دریا، دریائے سواں بھی اسی علاقے میں بہتا تھا ، جو بعد میں شدید زلزلوں کے باعث ختم ہوا اور نئے دریا، سندھ اور دریائے جہلم وغیرہ وجود میں آئے ۔ حالیہ

دریائے سواں اسی بڑے دریائے سواں کی باقیات میں سے ہے‘‘۔ حضرت نوحؑ کے بیٹے حضرت حامؑ کے حوالے سے سجاد اظہر کا کہنا تھا کہ ’’یہ بات قرین از قیاس ہے کہ حضرت حامؑ یہاں آئے ہوں۔ کیونکہ طوفان نوح کے بعد دنیا سے سب کچھ ختم ہوگیا تھا اور جب حضرت نوحؑ اوران کے بیٹوں نے دوبارہ زمین پر قدم رکھ ا تو انہوں نے مختلف علاقوں کا رخ کیا۔ ہو سکتا ہے حضرت حامؑ یہاں آباد ہوگئے ہوں۔ دراصل اتنی قدیم تاریخ کے حقائق ہمیں کہیں نہیں ملتے، بلکہ

تاریخ دان بھی بعض چیزوں کی بنیاد پر قیاس آرائی کرتے ہیں، یا پھر سائنسی تحقیق اس حوالے سے معاونت کرتی ہے۔ جیسے پوٹھوہار کے غاروں سے نکلنے والی انسانی ہڈیوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سب سے قدیم انسان اسی علاقے میں پائے جاتے تھے۔ اب تو ڈی این اے کا زمانہ ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب ہر انسان ڈی این اے کے ذریعے اپنے آبا و اجداد کے بارے میں جان سکے گا۔ چونکہ طوفان نوح میں سے نکلنے والا سب سے پہلا علاقہ پوٹھوہار کہلاتا

ہے، اس لیے کچھ بعید نہیں ہے کہ حضرت نوحؑ کے بیٹوں میں سے کوئی نہ کوئی اس جانب آباد ہوا ہو‘‘۔ حضرت حامؑ کی قبر کیلئے دھریالہ جالپ پہنچے تو مختلف لوگوں کی مختلف رائے سننے کو ملی۔ بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ قدیم ترین قبرستان ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ حضرت حامؑ کی ہی قبر ہو۔ جبکہ ایک طبقے کا کہنا تھا کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ، بلکہ یہ سب کچھ پیسے کمانے کا ذریعہ ہے۔ لیکن حیران کن طور پر اس مزار پرکوئی مجاور موجود نہیں تھا

اور نہ ہی کوئی وہاں پیسے وغیرہ اکٹھے کر رہا تھا۔ بلکہ یہ مزار آبادی سے اتنی دور ہے کہ اس تک پہنچنا ہی خاصا مشکل کام ہے۔ روال گائوں کے زاہد اقبال وڑائچ ہمیں موضع روال کے اس قدیم قبرستان لے کر گئے۔ زاہد اقبال کا کہنا تھا کہ ’’یہ قبرستان حضرت حامؑ کے قبرستان کے نام سے موسوم ہے اور اس کا کل رقبہ 33 ایکڑ کے لگ بھگ ہے۔ میرے والد صاحب 90 برس سے زیادہ عمر کے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے باپ دادا بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ قبر ہم نے اور

ہمارے پرکھوں نے اتنی لمبی دیکھی ہے۔ ہمارے آبا و اجداد اسے ’’وڈی قبر‘‘ (بڑی قبر) کہتے تھے۔ لیکن اس کے بارے میں کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ قبر کس کی ہے۔ لیکن اس پر منت صدیوں سے مانی جارہی ہے۔ منت ماننے کا طریقہ یوں ہے کہ تین مسلسل جمعرات کو قبر کی زیارت کرتے ہیں اور یہاں آکر سلام کیا جاتا ہے۔ تیسری جمعرات کو سلام کے ساتھ ساتھ یہاں آکر میٹھی روٹی رکھی جاتی ہے، جس کے بعد کسی قسم کا درد جسم کے کسی بھی حصے میں ہو، وہ

دور ہوجاتا ہے۔ اکثر جوڑوں کے درد کے مریض یہاں آکر شفا پاتے ہیں۔ پہلے تو اردگرد کے لوگ ہی یہاں حاضری دیا کرتے تھے، اب دیگر علاقوں سے بھی لوگ آتے ہیں اور مرادیں مانگتے ہیں۔ ابھی ایک ماہ قبل لاہور سے کچھ لوگ آئے، جنہوں نے اس مزار پر مزید کام کیا اور اس کا فرش وغیرہ پختہ کیا۔ ان سے قبل جلال پور تھانے کا تھانے دار آصف بھٹی اس مزار کی تزئین میں پیش پیش رہا۔ کیونکہ اس جانب آنے والے راستے میں کانٹے دار جھاڑیاں زیادہ ہیں، اس

لیے اس نے راستے بنائے اور مزار کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا‘‘۔ ریاض نامی ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’’جس وقت طوفان نوح آیا، وہ 9 نیزے پانی تھا۔ جہاں حضرت نوح کی کشتی رکی وہ مقام یہاں سے بہت دور ہے۔ وہاں سے یہ بیٹے کیسے یہاں پہنچے؟ اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس لیے آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں، دھیان سے لکھیے، یہ بہت نازک معاملہ ہے‘‘۔ اس مزار اور قبر کے حوالے سے صرف دو لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حضرت حامؑ کی قبر ہے اور

دونوں کا تعلق گجرات سے ہے۔ ایک حافظ شمس الدین گلیانوی اور دوسرے ایم زمان کھوکھر۔ حافظ شمس الدین کے بارے میں معلومات حاصل کیں کہ ان کا مقام کیا تھا، تو بتایا گیا کہ وہ صاحب کشف اور ولی اللہ تھے۔ ان کا مزار آج بھی گجرات میں مرجع خلائق ہے۔ جبکہ زمان کھوکھر ایڈووکیٹ نے پاکستان بھر میں اولیاء اللہ اور انبیائے کرامؑ کی قبور کے بارے میں تحقیق کی ہے۔ کشف قبور کا علم بہرحال موجود ہے اور یہ اللہ پاک صرف اپنے خاص بندوں کو عنایت

کرتا ہے۔ زاہد کا کہنا تھا کہ ’’روال کی آبادی دو ہزار کے لگ بھگ ہے، جو کہ صرف اس قبرستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہ ٹوٹل سات دیہات ہیں، جو مغلوں کے دور میں آباد کئے گئے۔ ان میں روال، غریب وال، سمہ، سہووال، واڑا، سدو وال اور ڈھنڈیاں ہیں۔ یہ سب مغلوں کے دور میں آباد ہوئے تھے۔ اس سارے علاقے کو ’’علاقہ پھپھرا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ سات دیہات آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور آپس میں رشتے دار ہیں۔ یہ سات دیہات بارہ کلومیٹر کے علاقے پر

محیط ہیں‘‘۔ حضرت حامؑ کی قبر کے پاس ایک چشمہ بہتا ہے، جو کہ پہاڑ سے نکلتا ہے اور پورے علاقے کو سیراب کرتا ہے۔ یہاں بہت گھنا جنگل ہے اور مزار تک کچا راستہ ہے، جس پر گاڑی نہیں جاسکتی، صرف پیدل ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں جنگلی جانوروںکی بہتات ہے۔ جب ہم مزار پر پہنچے تو وہاں دو تین قدیم درختوں نے اپنی موجودگی کا سب سے پہلے احساس دلایا۔ مزار کے احاطے کا بیرونی گیٹ کھلاہوا تھا اور عین اس گیٹ کے سامنے بھی ایک قدیم

درخت تھا۔ اس مزار کی دیکھ بھال ممتاز حسین شاہ کے پاس ہے، جو بہت عمر رسیدہ بزرگ ہیں اور محرم کے دنوں میں وقت نہیں دے پائے۔ بیرونی دروازے کے دونوں اطراف حضرت حامؑ کے حوالے سے تختیاں لگی ہوئی ہیں۔ دائیں جانب والی تختی پر قبر کے بارے میں مختصر سی تحقیق ہے، جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ بائیں جانب حضرت حامؑ کا شجرہ لکھا ہوا ہے، جو حضرت آدمؑ سے جا ملتا ہے۔ اب اس مزار اور قبر کے حوالے سے محمد زمان کھوکھر اور حافظ

شمس الدین گلیانوی کی تحقیق کے حوالے سے معلوم کرنا ضروری تھا۔ گجرات میں احباب سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ زمان کھوکھر ایڈوکیٹ اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں

اپنی رائے کا اظہار کریں