لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللَّہَ کَثِیرًا. فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔
(الاحزاب: 12) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ اخلاق حسنہ و سیرت طیبہ کے اعتبار سے وہ منور آفتاب ہے، جس کی ہرجھلک میں حسن خلق نظر آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک میں حضرت عیسیٰؑ کا حلم حضرت موسیٰؑ کا جوش اور حضرت ایوب کا صبر پایا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے لئے بستیوں اور بیابانوں میں اللہ کا پیغام پہنچایا، مخالفین کی سنگ زنی وسختیاں سہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی طرح
وطن چھوڑا اور ہجرت کی مگر پھر بھی دنیا انسانیت کو امن و محبت، رحمت اور سلامتی کا پیغام دیا۔ حضرت سلیمانؑ کی طرح اس دنیا میں حکمت کی طرح ڈالی غرض وہ تمام خوبیاں، اوصاف حمیدہ جو پہلے نبیوں میں پائی جاتی تھیں۔ وہ سب بدرجہ کمال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں موجود تھیں۔ حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارد، تو تنہا داری اسلام ایک ابدی مذہب اور سرمدی اصول ہے۔ امن و سلامتی کا ذریعہ اور صلح و
آشتی کا سرچشمہ ہے۔ قبل از اسلام دنیا کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ سینکڑوں خرابیاں اور بے شمار برائیاں سماج میں رائج تھیں توحید کی جگہ شرک خیر کی جگہ شر، امن کی جگہ جنگ اور عدل وانصاف کی جگہ ظلم واستبداد نے لے لی تھی۔ عورت کی معاشرے میں کوئی تکریم نہیں تھی۔ بیٹی کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اگر جنگ شروع ہوجاتی تووہ جنگ کئی سالوں تک جاری رہتی۔ شراب نوشی، جوئے بازی اور اوہام پرستی ان کے رگ و
ریشے میں سمایا ہوا تھا۔ انسانیت سسک رہی تھی، بلک رہی تھی اور کسی ایسے مسیحا کا انتظار کر رہی تھی جو سارے جہاں کا درد اپنے دل میں سمیٹ سکے ان جاہلانہ رسومات، خود ساختہ مذہبی، سماجی بندشوں، تہذیبی اور اخلاقی تنزلی، فتنہ و فساد، تخریب کاری، خرافات کا خاتمہ کر سکے جو ایسی تحریک چلائے جس سے اوہام پرستی کا خاتمہ ہو جائے جہالت وگمراہی کے اندھیروں، ظلم و جبر کی زنجیر کو توڑ کر غریبوں، بیواوں یتیمو ں اورکمزوروں کے
استحصال کو روکے بالآخر رب ذوالجلال کی رحمت جوش میں آئی۔ ظلم وبربریت کی تاریکی میں ہدایت کا ایسا سورج طلوع ہوا جس کی روشنی سے ہر سو اجالا ہو گیا۔ ولاد ت رسول اکرم ﷺ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی لقب ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے کسی معلم سے تعلم نہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من جانب اللہ متعلم تھے ظاہر ہے جس ہستی کو تعلیم دینے والا خود خالق کائنات، اللہ جل جلالہ ہو اسے کسی اور سے تعلیم حاصل کرنے کی
کیا ضرورت ہوگی آقا کریم کے والد آپ کی ولادت باسعادت سے قبل انتقال فرما گئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق و امین کا خطاب دیا۔ مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو کہ فطرت خود بخود کرتی
ہے لالہ کی حنا بندی خلوت و عبادت: بچپن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اماں حلیمہ کی بکریاں بھی چرائیں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کا چالیسواں سال شرع ہوا تو آپ کی ذات اقدس میں ایک نیا انقلاب رونما ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلوت پسند آئی چنانچہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ خلوت میں اللہ کی عبادت کا ذوق اس طرح بڑھ گیا آپ کا بیشتر وقت مناظر قدرت کے مشاہدات و کائنات فطرت کے مطالعہ
میں صرف ہوتا تھا۔ دن رات نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔ ایک دن آپ غار حرا کے اندر عبادت میں مشغول تھے کہ جبرائیل امین اللہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر تاج نبوت سجانے آگئے۔ آیات مبارکہ کے شان نزول کے بعد اللہ رب العزت نے مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت و تبلیغ حق کے منصب پر مامور فرمایا۔ غیر معمولی سیرت و کردار: آپ کا شباب
مجسم حیاء اور عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلان نبوت سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام حیات مبارکہ بہترین اخلاق و عادات کا خزانہ تھی صداقت ودیانت کم گوئی، ایفائے عہد، خندہ پیشانی، خوش اخلاقی، چھوٹوں سے محبت، بڑوں سے شفقت، صلہ رحمی، غمخواری، غریب پروری، عفو و درگزر، مخلوق خدا کی خیرخواہی الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اخلاص حسنہ و محاسنہ افعال کا مجسمہ اور تمام عیوب و نقائص سے پاک
تھی۔ بلا شعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کردار انسانیت کا ایک ایسا محیرالعقول اور غیر معمولی کردارہے جو نبی کے علاوہ کسی کا ممکن ہی نہیں۔ آپ ﷺ کا دستورِ تعلیم و معاملہ فہمی: حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اْمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے، چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اْمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوبچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی تھی معاملہ فہمی اور
معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت میں مو جود تھیں۔ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی قریشِ مکہ کے دوش بدو ش پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے جب عمارت میں ہجر اسود نصب کرنے کا وقت آیا تو قبائل میں سخت جھگڑا ہوگیا اس کشمکش میں چار دن گزر گئے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تلواریں نیام سے نکل آئیں۔ آپ نے اس
طرح اس جھگڑے کا تصفیہ فرمایا کہ آپ نے ایک چادر بچھا کراس پر حجر اسود رکھا اور تمام سرداروں کو حکم دیا کہ سب اس چادر کو تھام کر مقدس پتھر اٹھائیں سب سردارو ں نے مل کرچادر کو اٹھایا اورجب ہجر اسود اپنے مقام پر پہنچ گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کر دیا۔ کسب حلال کی اہمیت کے پیش نظر بچپن میں قریش کی بکریاں چرائیں جو تمام انبیا ء کی سنت بھی ہے اپنی ضروریات پوری
فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور التاجر الصدوق الامین (امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔ صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصادق الامین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ا وصاف کا اقرار کرتے تھے چنانچہ قبائلِ قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ہم نے بارہا تجربہ کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو ہمیشہ سچا پایا۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کو بطورِ اْسوہ حسنہ پیش کرنا تھا۔ وحی الہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچانے کے لیے جبریلِ امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ
بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔ بے شک یہ (قرآن) ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں