روح کو ہلا کے رکھ دینے والی محبت

روح کو ہلا

وہ میرے سامنے میز کی دوسری طرف بیٹھ کر بڑے اعتماد سے بولی ،جو عورت پچھلے پانچ سال سے آپ کے ساتھ ہے ،اور آپ کے دو بچوں کی ماں بھی ہے ،اسمیں اچانک ایسی کیا برائی ،کیا خرابی یاکمی واقع ہو گئی کہ آپ اس کی ساری محبتیں خدمتیں اور قربانیاں بھلا کر ،میری طرف مائل ہو گئے ؟ایسا کچھ

بھی نہیں ،بات صرف اتنی سی ہے کہ مجھے تم سے محبت ہے ۔ اور آپ نے اس محبت کو ملکیت سمجھہ لیا ،مجھے بتاے بغیر ،مجھ سے پوچھےبغیر پوچھ تو رہا ہوں ، تم مان جاو ،میں اسے چھوڑ دوں گا یعنی آپ کی خوشی کی خاطر اپنے جیسی عورت کا گھر تباہ کر دوں ،جو بالکل بے قصور ہے ،یہ جانتی بھی نہیں کہ آپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں مجھ میں تو اتنی ہمت نہیں سر ! وہ حتمی فیصلہ سنانے لگی ،میں بے حد پریشان ہو گیا . سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ

اسے کیا کہوں ،مجھے خاموش دیکھ کر بولی کیا سوچنے لگے سر ؟سوچ رہا ہوں ،رب کو منانا کتنا آسان ہے لیکن اس کے بندوں کو منانا کتنا مشکل پھر تو آپ جانتے ہیں کہ رب نارا ض بھی ہو جاتا ہے . میں خاموش رہا تو میرے چہرے پرنظریں جما کر بڑے سکون سے بولی میرے رب کو وہ انسان سب سے زیادہ نا پسند ہے ،جو میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالے ،یا ان کے بیچ نفرت پیدا کر کے ان کی علیحدگی کا سبب بنے ،کیا آپ چاہتے ہیں سر ،کہ میں خدا کےان

ناپسندیدہ بندوں میں شامل ہو جاوں ؟ میں غور سے اسے دیکھنے لگا یہ کیسی محبت ہے آپ کی ،جو مجھے میرے رب کے حضور شرمندہ کرنا چاہتی ہے ؟میرے پاس اس کی کسی بات کا معقول جواب نہیں تھا ،میں بس اسے حاصل کرنا چاہتا تھا ، لیکن وہ کسی صورت راضی نہ تھی کچھ عرصہ اسی کشمکش میں گزرا ،پھر لاسٹ سمسٹر ہوئے اور وہ چلی گئی .جانے سے پہلے میرے پاس آئی اور بولی سوری سر ! میں نے آپ کا دل دکھایا ، محبت میں ہم کبھی کبھی اتنی

دور نکل جاتے ہیں کہ قریب کے رشتوں کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہتی ، لیکن جوں جوں وقت گزرتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم غلطی پر تھے ، آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا ، میں چلی جاوں گی تو آپ بھی نارمل ہو جائیں گے اس کے جانے کے بعد کافی عرصہ بے چینی میں گزرا ،پھر میں نے اپنی پوسٹنگ دوسرے شہر کروا لی ،ماحول بدلا ، زندگی کی مصروفیات بڑھیں تو آہستہ آہستہ اس کی یاد میں کمی آنے لگی .آخر وہ وقت بھی آیا ،کہ وہ ذہن کے پردے سے

بالکل محو ہو گئی .کافی عرصے بعد ایک تقریب میں نظر آئی ،اسے دیکھ کر ماضی یاد آگیامیں اپنی احمقانہ محبت کی داستان اسے سنا کر زور زور سے ہنستا رہا ،اپنی بیوقوفیوں کے قصے دلچسپ انداز میں سنا کر خوش ہوتا رہا . اور وہ خاموشی سے سنتی رہی . پھر پوچھا ،سناو گھر بار کیسا ہے ؟ تو زور سے ہنس کر بولی گھر بار کیسا سر! اکیلی بڑے مزے میں ہوں مطلب ؟ میں حیران ہوا ،شادی نہیں کی تم نے ؟ ؟ میں نے سر سری انداز میں پوچھا تو پھیکی سی

مسکراہٹ لئے بولی کیا کرتی سر ! آپ کے بعد کوئی اور اچھا ہی نہیں لگا چائے کا کپ میرے ہاتھ میں لرزنے لگا ،احساس ندامت نے قوت گویائی چھین لی ،ماضی آہستہ آہستہ زخم کریدنے لگا جسے بھولے ہوئے مجھے زمانہ گزر گیا ،وہ آج بھی میری یاد کے ساتھہ رہ رہی تھیالفاظ حلق میں اٹکنے لگے ،خود کو سنبھال کر بڑی مشکل سے کہہ پایا مگر تم نے تو کبھی ۔۔۔۔۔۔ میری بات کاٹ کر بڑے کرب سے بولی جنہیں اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑتے ہیں ،انہیں جزبوں کا

احساس نہیں دلایا جاتا ،بس لاتعلقی کا گمان ہی کافی ہوتا ہے چائے چھلک کر میرے کپڑے داغدار کر گئ یہ بھی پڑھیں۔ آج جاب سے آتے وقت کافی دیر ہو چکی تھی.میں جیسے ہی گھر پہنچی مغرب کا وقت تقریبا ختم ہی ہو چکا تھا میں نے جلدی جلدی وضو کیا اور ویسے ہی گیلے ہاتھ پاؤ ں لیکر جانماز پر نیت باندھ کر کھڑی ہو گئی…میرے چہرے سے بار بار پانی ٹپک رہا تھا میں بار بار آستین سے صاف کرتی اور نماز جاری رکھتی…نماز کے دوران ہی مجھے یاد

آیا کہ میں امی کی دوائیاں لانا بھول گئی تهی… آج آفس میں بہت کام تھا کھانا کھانے کا بھی وقت نہیں ملا..میں بہت تھک چکی تھی سجدے میں جاتے ہی نے نماز میں دھیان لگانے کی بہت کوشش کی لیکن مجهے لگا, میں ایک ایسے میدان میں تھی جہاں پر بہت سارے لوگ جمع تھے سب کے ہاتھ میں ایک ایک کتاب تھی،.،مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے تبھی کسی نے ایک کتاب میرے ہاتھ میں بھی تھما دی جس پر میرا نام لکھا تھا میں نے کتاب

کھولی جس میں میرے اچھے برے اعمال لکھے ہوئے تھے میرا دل بیٹھ گیا میں نے سوچا یاﷲ کیا میں مر گئی ہوں ؟میں نے سب طرف نظریں گھمائیں سب ایک لائن میں کھڑے اپنی اپنی کتاب جمع کرا رہے تھےمیں سمجھ گئی تھی کہ میں اب مر چکی ہوں میرا بھی حساب کتاب ہونا ہے میں نے بھی اپنی کتاب جمع کرائی اور انتظار کرنے لگی جب سب لوگوں کی کتابیں جمع ہو گئں تب فیصلے کا وقت آیا مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا سب سے پہلے میرا نام لیا

گیا..میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا میں نے سوچا نہ جانے آج میرا کیا ہوگا? آج میرا انجام کیاہوگا؟ تبهی آواز آئی جہنم…مجھےیقین نہیں آیا کہ میرا انجام یہ ہوگامیں زور زور سے رونے لگی میرے گالوں سے آنسو بہنے لگے..تبھی دو خطرناک ساے آے اور مجھے گھسیٹنے لگے میں چیختی رہی مجھے بچاؤ کوئی مجھے بچاؤ سب سہمی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھتے رہے کوئی بچانے کے لیے آگے نہیں آیا…میں نے چلّا کر کہا میں نے کبھی کچھ غلط نہیں کیا، کبھی

جھوٹ نہیں بولا کسی کی چغلی نہیں کی،سود نہیں کھایا، پھر مجھے کیوں جہنم میں پهینک رہے ہو?کوئی کچھ نہی بولا صرف مجھے کھینچتے رہے. اب میں جہنم کی آگ محسوس کر سکتی تھی.اسکا منہ تھوڑی دور رہ گیا.اور اس میں سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے کوئی جانور رسّی توڑ کر مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہو..تبھی مجھے اپنی نماز یاد آئی… میں زور زور سے چلانے لگی میری نماز, میری نماز کہاں ہے؟جہنم کا منہ سامنے تھا.دنیا میں, میں ذرا

سی گرمی برداشت نہیں کرتی تھی , یاﷲ اس گرمی کو کیسے برداشت کرونگی؟اب میں جہنم کے دروازے پر تھی اور زور زور سے رو رہی تھیاپنی نماز کو آواز دے رہی تھیلیکن کوئی سننے والا نہیں تها.میں چلاّئی لیکن کوئی فرق نہیں پڑا.ایک ساے نے مجھے جہنم میں دھکاّ دے دیا اور میں جہنم کی تپتی آگ میں گرنے لگی مجھے لگا یہ ہی میرا حشر ہے.اتنے میں ایک ہاتھ نے مجھے پکڑ لیا.میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو دہانے پر ایک بزرگ کھڑے تھے.سفید ڈاڑهی اور

نورانی چہرہ لئے مسکرا رہے تھے.نیچے دوزخ کی آگ مجھے جھلسانے کے لیے مچل رہی تھی. لیکن اس بزرگ کا ہاتھ لگتے ہی اسکی تپش ٹھنڈک میں بدل گئ،.میں نے ان سے پوچھا آپ کون ہیں؟انہوں نے مجھے باہر کھیچ کر کہا تمہاری نماز…. مجھے غصہ آگیا میں نے کہا, آپ اتنی دیر سے کیوں آے ہیں.? آپ اگر تھوڑی اور دیر سے آتے تو میں جہنمی بن چکی ہوتی..بزرگ نے مسکرا کر کہا تم بھی تو مجھے آخری وقت میں پڑھا کرتی تھی.تبھی میری نیند کھل

گئی.کوئی مجھے زور زور سے ہلا رہا تھا..میں نے دیکھا امی میرے پاس کھڑی ہوئی ہیں اور بول رہی ہیں کیا ہوا نماز نماز کیوں چلاّ رہی ہو???میری خوشی کا کوئی ٹهکانا نہیں رہا…میں زندہ تھی..میں نے امی کو گلے سے لگایا اور کہا آج کے بعد میں کبھی نماز میں دیر نہیں کرونگی …،دوستوں آپ سب بهی نماز پڑھو اس سے پہلے کہ آپکی نماز پڑھائی جاے..،.نماز پڑھو , اسے اول وقت پر ادا کرو…

اپنی رائے کا اظہار کریں