چقندر انتہائی نایاب پھل ہے نایاب اس حوالے سے ہے کہ مارکیٹ میں تو آسانی سے مل جاتا ہے مگر استعمال کے حوالے سے بہت ہی نایا ب ہے کہ اس کو ہمارے ہاں استعمال نہیں کیا جاتا حالانکہ اس کے بہت سے فوائد ہیں اور یہ جسم کے لئے بہت ہی ضروری ہے خون پیدا کرتا ہے
مقوی دماغ ہے جگر صاف کرتا ہے مثانے کوقوت بخشتا ہے۔نظام انہضام کو بہتر بناتا ہے۔دور حاضر میں قبض ،ہیپاٹائٹس،ڈپریشن اور کینسر ایسے امراض کا علاج کرنا ہو تو قدرت الٰہی سے یہ خصوصیات ہمیں چقندر میں مل جائیں گی جو معالجہ کی زبردست قوت رکھتی ہے۔ْچقندر میں مینگانیز اور بیٹین کثیر تعداد میں موجود ہوتا ہے جس سے اعصابی نظام کا فعل درست ہوجاتا ہے۔ چقندر کو لال رنگ دینے والے اجزاء بیٹالین اورویٹامن سی قوت مدافعت میں اضافہ کرتے اور بیماریوں سے بچنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔تحقیق کے مطابق یہ کینسر
سیلز کو جنم لینے سے بھی روکتے ہیں۔چقندر ایک معروف سبزی ہے جسے عربی میں سلق اور انگریزی میں بیٹ روٹ کہا جاتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے چقندر کو صحت کے انتہائی مفید قرار دیا ۔ اور صحابہ اکرام ؓ کے طبی فوائد کی بنا پر اسکو شوق سے کھاتے ۔ترمذی میں حضرت ام منذرؓکے حوالے سے ایک حدیثہے ۔ ایک بار رسول اللہﷺ حضرت ام منذرؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت علیؓ آپﷺ کے ہمراہ تھے۔ اس وقت گھر میں کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے۔ سرکار دوعالم ﷺ نے ان کھجوروں میں سے تناول فرمایا ۔ْتو حضرت علیؓ بھی
کھانے لگے اس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا اے علی! تم کمزور ہو اس لئے تم نہ کھاؤ ۔ ام منذرؓ چقندر کھانے لگیں تو آنحضورﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اس میں سے کھاؤ کیونکہ یہ تمہارے لئے مفید ہیں۔محدثین بتاتے ہیں کہ ان دنوں حضرت علیؓ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ اور دکھتی آنکھوں پر کھجور کھانا مضر ہے۔ اس لئے آپﷺ نے حضرت علیؓ کو منع فرمایا اور جب آپﷺ کے سامنے چقندر پیش کئے گئے توآپﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ کھاؤ۔ کیونکہ یہ تمہارے لئے مفید ہیں اور تمہاری ناطاقتی کو یہ دور کر دے گا۔ اسحدیث کی روشنی
میں دوباتیں معلوم ہوتی ہیں کہ پرہیز کرنا سنت ہے ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ چقندر کھانے سے کمزوری دور ہوتی ہے۔بخاری شریف میں بھی چقندر کا ذکر ملتا ہے۔قتیبہ بن سعید، یعقوب، ابوحازم ، سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں ہم لوگوں کو جمعہ کے دن آنے کی بہت خوشی ہوتی تھی. اس لئے کہ ایک بڑھیا تھی جو چقندر کی جڑیں جنہیں ہم اپنی کیاریوں میں لگاتے تھے اس کو اکھیڑ کر اپنی دیگ میں ڈالتی تھی۔ اور اس میں جو کے کچھ دانے بھی ڈال دیتی تھی۔ میں یہی جانتا ہوں کہ اس میں چکنائی یا چربی نہیں ہوتی تھی، جب ہم
جمعہ کی نماز پڑھ لیتے۔ تو اس بڑھیا کے پاس آتے۔ْوہ ہم لوگوں کے پاس وہی چقندر لا کر رکھ دیتی تھی۔جمعہ کے دن کی خوشی ہمیں اسی سبب سے ہوتی تھی۔ اور ہم لوگ جمعہ کی نماز کے بعد ہی کھانا کھاتے اورقیلولہ کرتے تھے اطبا کہتے ہیں کہ چقندرکھانا ہضم کرتی اور رعشہ کیلئے مفید اور بلغم خارج کرتی ہے۔چقندر کا مزاج پہلے درجہ میں گرم خشک ہے ۔ یہ مواد تحلیل کرتی اور سدے کھولتی ہے ۔چقندر کی چار معروف اقسام ہیں ۔ ان میں سے سفید چقندر کا پانی جگر کی بیماریوں میں اچھے اثرات رکھتا ہے۔چقندر کے قتلوں کو پانی میں ابال
کر اس پانی کی ایک پیالی صبح ناشتا سے ایک گھنٹہ پہلے پی لی جائے تو پرانی قبض بھی ختم ہوجاتی اور بواسیر کی شدت بھی بتدریج کم ہوجاتی ہے۔ چقندر کا شربت بنا کر اس میں ایک چمچ دیسی گھی ملا کر استعمال کرنے سے جگر صاف ہوتا ہے اور جگر کے تمام مسائل سے نجات ملتی ہے دو دن اس شربت کواستعمال کیجئے اور جگر کے تمام مسائل سے نجات حاصل کیجئے ۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمینْ
اپنی رائے کا اظہار کریں