کسی گاؤں میں ایک پہلوان رہتا تھا۔ اپنے علاقے کا بہت مشہور اور جانا مانا۔اسکی ایک ہی بیٹی تھی۔ بہت لاڈ اور پیار سے پالی۔خوبصورت اور نازک سی۔ بیٹی جوان ہوئی تو اسکی شادی کی فکر ہوئی۔چونکہ پہلوان تھا۔ اسلیئے بیٹی کے لیئے ایک پہلوان ہی پسند آیا۔ اونچا لمبا تنے ہوئے بدن کا مالک۔ گھنی موچھوں والا۔ گھبرو۔ زمیندار۔ نازو پلی بیٹی وداع کردی۔چھے ماہ بھی ناگزرے تھے کہ پہلوان داماد نے بیٹی کومار پیٹ کر نکال دیا۔
کہ گھر کا کوئی کام نہیں آتااسے۔باپ کادل بہت رنجیدہ ہوا۔مگر کسی کوکچھ نا کہا۔کہ فضول میں تماشا بنے گا۔ بیوی سے کہا کہ اسے ہر چیز سکھاو۔ جو گھرداری کے لیئے ضروری ہوتی۔ ماں نے بیٹی کو جھاڑو پوچا۔کھانا پکانا۔ سب سیکھیا۔ چندماه بعد صلح صفائی ہوئی۔داماد کوبلایا۔معافی مانگی کہ شرمندہ ہیں پیار میں گھرداری ناسیکھائی۔چھے ماہ ناگزرے۔ بیٹی پھر مار کھاکرمیکے واپس آگئی۔ کہ کوئی سیناپرونانہیں آتا۔پھر پہلوان بہت دکھی ہوا۔ پھر بیوی کو کہا اسے سینا پروناسیکھاو۔بیوی نے سلائی کڑھائی گوٹا کناری رضائیاںبچھائیاں یہاں تک کے پراندے اور ازار بندھ بھی سیکھائے۔ پھر داماد کوبلایا۔غلطی کی معافی مانگی۔اوربیٹی رخصت کی۔
پھر چند ماہ گزرے بیٹی پھر نیلونیل مار کھاکر میکے واپس کہ کھیت کھلیان نہیں سنبھال سکتی میرے ساتھ گائے بھینسوں کادودھ دوبنا نہیں آتا۔ پہلوان بہت ہی دکھی رنجیدہ۔ یا اللہ کیسا نصیب ہے بیٹی کا خیر بڑی عزت تھی زمانے میں خاموش رہا۔بیٹی کو ساتھ لےجاتا کھیتی بھاڑی کے کام سیکھائےاور ایک بار پھر بیٹی بہت دعاوں کے ساتھ رخصت کی۔ پھر چند دن گزرے۔پھر بیٹی روتی میکے پہلوان نے سوال کیا بیٹی اب کیا ماجرہ ہوا۔کہنے لگی میرا شوہر کہتا ہے تو آٹا گھوندھتے ہوئے بلتی بہت ہےپهلوان کو اب ساری بات سمجھ میں آئی۔ اس کے داماد کو عادت پڑھ چکی تھی مارنے کی اور لت لگ گئی تھی بیوی په رعب جمانے کی۔کہنے لگا۔
بیٹی میں نےتجھے سب سیکھایا۔ مگر یہ نہیں سیکھایا کہ تو بیٹی کس کی ہے۔بیٹی حیران ہوئی۔مگر کچھ ناسمجھی۔ چند دن بعد داماد پهلوان کو احساس ہوا کہ بہت عرصہ گزرا نا سسر نا معافی مانگی نا بیٹی واپس بھیجی۔خیر خبر لینے سسرال کے گھر گیا۔سسر نے دروازے پہ روک لیا اور کہا۔ انہی پیروں پہ واپس چلاجا۔ آج کی تاریخ یاد رکھ لے۔ پورے دوسال بعد آنا اور آکر بیوی لے جانا۔ اگر اس سے پہلے مجھے تو یہاں نظر آیا تو ٹانگیں تڑواکر واپس بھیجوں گا۔۔۔ داماد کو فکر ہوئی۔۔ مگر انا آڑھے آئی اور لوٹ گیا۔ دن گزرتے رہے۔پہلوان بیٹی کو منہ اندھیرے کھیتوں میں لے جاتا اور سورج نکلنے پرگھر بھیجتا۔بیوی نے باربا پوچها مگر یہ راز نا کھلا۔دوسال گزر گئے۔ داماد بیٹی کو لینے آیا۔
باپ نے خوشی خوشی رخصت کی۔ چند دن گزرے پہلوان داماد نے عادت سے مجبور چیخنا چلانا شروع کردیا اور مارنے کے لیئے بیوی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ بیوی نے کسی منجھے ہوئے پہلوان کی طرح شوہر کوبازوسے اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا اور کہا تو جانتا ہے نا میں بیٹی کس کی کی ہوں وہ سمجھ گیا کہ اب کی بار دوسال میں باپ نے بیٹی کو کیاسیکھا کر بھیجا ہےاور اسکے بعد پہلوان کو دوبارہ بیوی سے اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا گیااور بیٹی کبھی دوبارہ مار کها کر میکے نہیں آئی باپ نے بیٹی کو کیا سیکھایا۔آپ بھی جان گئے ہوں گے۔ہرچیز ماں کے سیکھانے کی نہیں ہوتی۔کچھ باتیں کچھ اعتماد باپ بھی بیٹیوں میں لاتا ہے۔اس لیئے میں سمجھتی ہوں جو دور جارہا ہے۔اس میں بیٹیوں کو اپنی حفاظت کرنا ۔ضرور سیکھانا چاہیے۔مجھے آپ کی قیمتی رائے کا شدت سےانتظار رہے گا۔
اپنی رائے کا اظہار کریں