ڈھیٹ سے ڈھیٹ عورت بھی اس مرد کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جاتی ہے جو مرد

مجبور

برنارڈ شا سے ایک نوجوان خوبصورت لڑ کی ملاقات کے لئے آئی بر نار ڈ شانے عزت افزائی کے لئے کہا ، مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ۔ لڑکی نے کہا ، لیکن مجھے تو کوئی خوشی نہیں ہوئی بر نارڈ شانے کہا ، محترمہ کیا آپ میری طرح جھوٹ نہیں بول سکتی ! زندگی ایک آرٹ ہے ، فن ہے ، کلا

کاری ہے ۔ ۔ اس لیئے جینے کے لیے ، جھیلنے کے لیے ، قابو میں کرنے کے لیے ، اسے ایک آرٹسٹ ، فنکار اور کلاکار کی لازمی ضرورت در پیش ہے ۔ برسوں کسی ایک شخص کی خوشبو میں سانسوں کے اسیر رہنے کو محبت کہتے ہیں ۔ >ہماری لائف میں دو ہی قسم کے لوگوں کی اہمیت ہوتی ہے ، ایک وہ جن سے ہم محبت کرتے ہیں اور دوسراوہ جن سے ہم نفرت کرتے ہیں ، جن لوگوں سے ہمیں نہ نفرت فیل ہو نہ محبت وہ ہماری لائف میں ہونے کے باوجود بھی اہمیت ں کے حامل نہیں ہوتے ۔ انسان ہمیشہ اپنی ایکسٹریم پہ جا کر ہارتا ہے ، اور اس سے ہارتا ہے جس سے جیتنے کی اسے خواہش ہی نہیں ہوتی ۔ بند

دروازوں پر دستک دینا بھی باہمت لوگوں کا کام ہے ، اپنی انا کے حصار میں قید رہنے والے اس سے ف و عنایت محروم رہتے ہیں ۔ کسی سے محبت کی امید رکھنا بھی بھیک مانگنے کا ایک طریقہ ہے اس میں بس ہاتھ نہیں پھیلاے جاتے ۔ ، انسان ذہنی طور پر تب بیار اور مردہ ہونے لگتا ، ہے جب اس کے اندر سے امید ختم ہو جاتی ہے ناامیدی انسان کو زندگی میں موت سے ہمکنار کرتی ہے ۔ جو سچے دل سے محبت کرتے ہیں وہ من میں مرتے ہیں یالڑتے ہیں ۔ ڈھیٹ سے ڈھیٹ عورت بھی اس مرد کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جاتی ہے جو مر دتوجہ دے کر پر واہ کر نامچوڑ دیتاہے ۔ دکھ فقط محبتوں کے بچھڑ جانے کے ہی

نہیں ہوتے ، کچھ دکھ ، کچھ بہت اپنوں سے وابسطہ امید میں ، کچھ مان ، اور کچھ بھرم ٹوٹ جانے کے بھی ہوتے ہیں اور خدا کی قسم یہ خسارے قبروں تک ہمارے ساتھ جاتے ہیں ۔

اپنی رائے کا اظہار کریں