میری والدہ نے پڑوسی پر اعتماد کر کے مجھے روزگار کیلئے ان کی فیملی کے ساتھ دوبئی بھیج دیا

دوبئی

جس محلے میں رہتے تھے ۔ ہمارے پڑوس میں رہنے والی فیملی سے اچھے تعلقات تھے۔ان کا گھرانہ میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل تھا ۔ گھرانے کے سربراہ کا نام صادق تھا ۔ ان دنوں جب میں نوکری کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی اور ہمارے گھر یلو حالات بہت خراب تھے ، ماں بچاری بہت پریشان

تھی ۔ایک روز ماں نے پڑوسی ہونے کے ناتے صادق کو اپنا دکھ سنایا اور التجا کی کہ میری بچی کو نوکری دلوا دو ۔ صادق نے ماں کو تسلی دی اور کہا کہ اگر آپ مجھ پر اعتبار کرو ۔ تو میں آپکی لڑکی کو دبئی میں ملازمت دلوا سکتا ہوں ، بہت اچھی تنخواہ ملے گی ۔ میں خود وہاں جارہا ہوں اور بیوی بچے بھی ساتھ جا رہے ہیں ۔ آپکی بیٹی فریدہ وہاں میرے گھر پر رہے گی ۔ میں ہر ہفتہ آپکی اس سے فون پر بات کروا دیا کروں گا ۔ غربت سے مجبور ماں کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس کی باتوں میں آکر ہامی بھر لی ۔ صادق کچھ دن کے لئے گھر سے چلا گیا ، میری امی نے جب سلطانہ بھابھی سے صاق کے بارے میں

پوچھا ۔ تو انھوں نے بتایا ویزہ کے سلسلے میں گئے ہوۓ ہیں ۔ صادو جب واپس آیا تو ہمارے گھر مٹھائی لیکر آیا اور میری ماں کو خوش خبری سنائی کہ اپنی فیملی کے ساتھ وہ میرا بھی ویزا لے آیا ہے ۔ اب پاسپورٹ اور ٹکٹ کا بندوبست کرنا ہے ۔ ماں نے اپنے کانوں سے بالیاں اتائیں اور کچھ پیسیوں کا بند وبست ادہار لے کر کیا ۔ کچھ دن بعد صادق نے آکر بتایا ویزہ اور ٹکٹ آگیا ہے ۔ روانگی کے دن میں صادق اور اس کی فیملی کے ساتھ اپنی والدہ کو روتا چھوڑ کر ہوائی جہاز پر بیٹھ گئی ۔ مختلف خیالات دل میں نے میں ائیر پورٹ سے باہر آئی ۔ میں سمجھی ہم دبئی آگئے ۔ یہاں چند دن صادق نے مجھے اپنی فیملی کے

ساتھ رکھا ۔ اور پھر وہ مجھے ایسی جگہ لے آیا >جہاں مجھ کی اور بھی بد نصیب لڑکیاں تھیں ۔ ان سے ملی تو پتہ چلا کہ صادق نے جھوٹ بولا تھا ۔ وہ مجھے لے کر کراچی آگیا تھا۔اور یہاں ایک شخص کے ہاتھوں فروخت کر دیا تھا ۔ یہ شخص بازار حسن کا دلال تھا جو دہلی نکاح نامے پر دستخط کر کے مجھے بیوی بناکر لایا تھا ۔ لیکن اس کا کام عورتوں کو خرید کر بازار حسن کی زینت بنانا تھا ۔ میں جس عزت کی حفاظت میں اتنی دور آئی تھی ، یہاں اس کا

نیلام ہونے لگا ۔ میرا کوئی پرسان حال نہ تھا ۔ موت کی دعا کرتی تھی لیکن موت بھی نہیں آتی تھی ۔ میں ہر روز بظاہر جیتی اور ہر روز مرتی تھی ۔ گڑ گڑا کر دعا کرتی تھی کہ اے خدا کسی شریف انسان کو میرے پاس بھیج دے جو مجھے اپنی بیوی بنالے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس دلدل سے نکال لے ۔ اللہ نے میری دعا قبول کی ۔ ایک شخص جو شکل سے شریف اور بااخلاق لگتا تھا ۔ میرے پاس آتے ہیں اس نے آتے ہی مجھ سے سوال کیا … تم مجبور ہو یا خوشی سے اس جگہ پر آئی ہو ۔ میں نے اس کی طرف چونک کر ایسے دیکھا جیسے کسی نے بجلی کا جھٹکا دیا ہو ۔ سال بھر سے جیسے کہ میں بس اسی سوال آٹھوں

کے انتظار میں بیٹھی تھی ، تبھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ گئیں ۔ جب رو کر دل کا غبار نکال چکی تو اس نے کہا ۔ سچ کہا تھا میرے دوست نے ، میں صحیح لڑکی کے پاس پہنچا ہوں ۔ کیا کہا تھا آپ کے دوست نے اور کون ہے وہ آپ کا دوست ؟ میں نے رندھی ہوئی آواز میں دریافت کیا تو نعیم نے بندھی ہوئی آواز میں د بتایا ۔ میں اس بازار کا شوقین نہیں اور نہ ہی میرا شوق تھا کہ یہاں آکر خود کو رسوا کروں ۔ تاہم میرے چند دوست ایسے ہیں جو اس جگہ آتے رہتے ہیں ۔ میرے دوست میرے گھر پر بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور میں حیرت سے ان کی باتیں سن رہا تھا ۔ اسلم نے کہا کہ یار

طبیعت بوجھل ہے ۔ ادھر جانا چاہئے … دوسرا بولا … اس بار شاہد سے کہنا ، پھر اس لڑکی سے نہ ملا دے جس کا نام ہم ، نے ‘ ‘ دکھی صورت ‘ ‘ رکھا ہے … ہر وقت روتی رہتی ارے ہاں یار .. . وہ فریدہ وہ تو نفسیاتی مریض ہے ۔ خوبصورت تو بے حد ہے لیکن ابھی تک اس نے ماحول کو قبول نہیں کیا ہے ۔ کوئی دل بہلانے جاتا ہے اور یہ رو رو کر غموں کو دگنا ہے ۔ کردیتی ہے ۔ دل خراب ہو جاتا ہے ۔ یار ترس آتا ہے اس پر ، کم بخت ایک دلال اسے دھوکے سے یہاں لایا ہے ، نوکری کا جھانسا دیا تھا ۔ وہ بے چاری شریف لڑکی تھی ۔ جب ہی روتی ہے ۔ میں نے جب دوستوں سے ایسی باتیں سنیں تو تمہارا پتا دریافت

کیا اور یہاں تک آگیا ۔ جب پہلی نظر تم پر پڑی تو تمہاری اچھی صورت سے متاثر ہوا ۔ مگر تم سے بات کرتے . ہی معلوم ہو گیا کہ تمہیں طوائف بنادیا گیا ہے ۔ مگر تمہارے اس سجے ہوۓ جسم کے اندر ایک شریف عورت ابھی تک زندہ ہے ۔ اچھا بتائو تم یہاں تک کیسے پہنچیں اور کون لایا تھا تم کو یہاں ؟ تھی میں نے اپنی ساری کہانی نعیم کو سنادی ۔ میری کہانی سن کر اس نے کہا ۔ فریدہ اگر واقعی تم سچی ہو اور اس گندگی سے چھٹکارا پانا چاہتی ہو تو یہاں سے اس وقت نکل چلو ۔ میں تم سے شادی کروں گا ۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔ میں اس گناہ کی زندگی سے تنگ تھی ۔ میں فوراً راضی ہو گئی ۔ اور پھر

رات کو نعیم مجھے وہاں سے طرح نکال کر اپنے فلیٹ میں لے آیا ۔ صبح ہم نے نکاح کیا اور میاں بیوی جیسے مقدس بندھن میں بندھ گئے ۔ چند دن بعد نعیم نے اپنے گھر والوں سے رابطہ کیا اور ان کو خوش خبری دی کہ اس نے شادی کرلی ہے ۔ نعیم نے اپنے گھر والوں سے معافی مانگی کہ اس نے بنا اجازت اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اکیلے کر لیا تھا ۔ نعیم کے والدین نعیم کی اس حرکت پر بہت ناراض تھے ۔ بہر حال اپنے تو اپنے ہوتے ہیں ۔ کچھ ہی دنوں میں انہوں نے نعیم کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ کہا کہ اپنی دلہن کو ساتھ لے کر گھر آجائو ۔ وہ جیسی بھی ہے ہمیں قبول ہے ۔ ہماری بہو بن گئی ہے تو قبول کرنا ہی

اس جواب کے ملتے ہی نعیم خوش ہو گیا اور مجھے لے کر اپنے گھر والوں کے پاس گیا ۔ جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بہو بن گئی ہے تو جیسی بھی ہے ہم قبول کر لیں گے ۔ نعیم کے ماں بہن بھائیوں نے مجھے قبول کر لیا اور وہی عزت دی جیسی باپ کہ ایک بہو کو ملنی چاہئے تھی ۔ تھی ۔ ۔ ۔ اب میں نعیم کے گھر والوں کے ساتھ ان کے گھر میں رہنے نعیم اور میں بہت خوش تھے کہ ہم اپنوں میں آگئے ہیں اکیلے جیون کی سختیاں سہنے سے بچ گئے ہیں ۔ شادی کو تین برس بیت گئے لیکن میں اولاد کی نعمت سے اب تک محروم تھی ۔ اولاد نہ ہونے پر بھی نعیم مجھے بہت چاہتے تھے ۔ میں ان سے کہتی تھی کہ میری

طرف نہ دیکھو اور دوسری شادی کرلو ۔ اولاد تو اللہ کی نعمت ہے ، آپ کیوں میری وجہ سے اس نعمت کو ترسیں ۔ تب وہ کہتے تھے کہ میں تم پر کبھی سوتن نہ لائوں گا اور کبھی دوسری شادی نہ کروں گا ۔ تمہارا کیا قصور ہے ، میں کیوں تم پر قلم کروں ۔ پہلے کیا کم دکھ اٹھایا ہے تم >لیکن میں ان سے کہتی آپ نے ایک بار قربانی دی ہے ، اس احسان کو نہیں بھول سکتی ۔ اب دوسری قربانی نہ دیں ، تو نعیم کہتے تھے ۔ جب قربانی دی ہے تو پوری طرح دوں گا ورنہ قربانی ضائع ہو جاۓ گی ۔ وہ مجھ سے جو اتنا پیار کرتے تھے ، میں بھی دل و جان سے انہیں چاہنے لگی تھی ۔ وہ بھی اچھے انسان تھے ، میں بھی اچھے دل

کی تھی ۔ اللہ تعالی نے ہماری جوڑی خوب ملائی تھی اور ہم بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے کہ ایک بار پھر میری زندگی میں مشکلات آگئی ۔ >ایک بار جبکہ نیم گھر پر نہ تھے ، ان کے ایک دوست اسلم اپنی بیوی کے ساتھ ہمارے گھر آۓ ۔ میں انجانے میں ان کے سامنے چلی گئی ۔ اسلم نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا ۔ وہ گئی بار اس بازار میں آچکا تھا ۔ اس نے اپنی بیوی کو پیڈیا کہ نعیم کی بیوی کا تعلق بازار حسن سے ہے ۔ خدا جانے نعیم کی مقتل کو کیا ہوا تھا جو ایک طوائف کو بیوی بنا کر گھر لا بٹھایا ہے ۔ اسے اپنی والدہ اور بہنوں کا بھی احساس نہ رہا کہ یہ عورت کیسے ان کے درمیان رہے گی ۔ اسلم کی بیوی

نے میری ساس کی بھانجی علیہ کو سارا قصہ >بتایا ۔ عطیہ بھی پیٹ کی ملکی نکلی اور یوں بات ہوتے ہوتے سارے خاندان میں پھیل گئی ۔ میری ساس اور نندوں کو جب پتہ چلا انہوں نے نعیم سے پوچھا ۔ تب حقیقت انہوں نے بتا کر کہا کہ … حالات نے فریدہ پر ظلم کیا ہے ، اس کا تو کوئی قصور نہیں ہے ۔ میں اسے گناہ گار نہیں سمجھتا ، نیکی سمجھ کر اس کے ساتھ نکاح کیا ہے ۔ کوئی کچھ بھی کہے ، مجھے ہر گز اس کی پروا نہیں ہے ۔ ہم اپنے گھر میں خوش ہیں ، کوئی ہم سے تعلق رکھے یا نہ رکھے ۔ ان را تیس میری ساس نے غصہ سے کہا اگر طوائف کو بیوی بنالیا تھا تو پہلے بتانا تھا ۔ ہم تم کو اسے یہاں لانے کا نہ

کہتے ۔ اب تم لوگ ہم سے الگ ہو جائو اور علیحدہ رہو کیونکہ میری بچیوں کی ابھی شادی نہیں ہوئی ۔ ان کے رشتے ہونے ہیں اور جس گھر کی بہو طوائف زادی ہو ، اس گھر کی بچیوں کے رشتے کون لے گا ۔ میری بیٹیاں تو بن بیاہی رہ جائیں گی ۔ کون سا شریف گھرانہ میری لڑکیوں کو رشتہ دے گا ۔ جب میں نے ساس کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ۔ وہ کہہ رہی تھیں ۔ میں تو ساس ہوں ، اگر فریدہ کے والدین بھی اس کے حالات جان لیں تو اسے بیٹی کہہ کر بلانا پسند نہ کریں گے ۔ یہ اور ایسی بہت سی باتیں انہوں نے کی جو میری روح کو تڑ پا گئی ، تجمی مجبور ہوکر نعیم نے کرایہ کا مکان

تلاش کیا اور ہم علیحدہ ہو گئے ۔ میں اب اپنے شوہر کے والدین کے گھر نہیں جاتی تھی ، ان کے بہن بھائی اور رشتہ دار بھی مجھ سے نہیں ملتے ۔ اتفاقاً مل جائیں تو کترا کر نکل جاتے ۔ تب بہت دکھ ہوتا ۔ میں سوچتی اگر طوائف ہونا قابل نفرت ہے ۔ ان لوگوں سے بھی نفرت >اگر طوائف ہونا قابل نفرت ہے ۔ ان لوگوں سے بھی نفرت کی جانی چاہئے جو عورت کو طوائف بناتے ہیں ، میں ہر وقت اللہ سے رو رو کر دعا کرتی ہمیں ان مشکلات سے نجات دے ۔نعیم کی کمپنی کی جانب سے انھیں دوبی فیملی کے ساتھ جانے کا موقع ملا تو انھوں نے فوراً حامی بھر لی۔دوبئی ائیر پورٹ پر اترتے ہوۓ میرے دل کی کیفیت اجیب

تھی ۔جس ے ملک کا کہ کر میں بے آبرو ہوئی تھی ۔ اسی ملک میں اپنے ان مخلص ہمسفر کے ساتھ تھی ۔ >یہاں آکر اللہ نے مجھے اولاد کی نعمت سے بھی نواز دیا ۔میں ایک پیاری سی گڑیا کی ماں بن گئی ۔ جس کا نام نعیم نے جنت رکھا ۔ آج میں اپنے ماضی کا سوچتی ہوں روح کانپ جاتی ہے ۔ میرے اخلاص اور دل سی کی ہوئی دوائوں کو میرے رب نے قبول کیا۔اور مجھے اللہ نے وہ سب کچھ عطا کیا جس کی خواہش ہر لڑکی کرتی ہے ۔ میں اور نعیم اپنی جنت کو پاکر بہت خوش ہیں ۔۔۔۔۔

اپنی رائے کا اظہار کریں