یہ آیت لکھ کے پرس میں رکھ لیں دولت کبھی ختم نہیں ہو گی

دولت

جو شخص جو کہ قرضوں میں گھرا ہوا ہے ۔وہ شخص قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌاس آیت کو پڑھے۔ایک شخص جس نے گر گرا کہ پڑھا خوب بھکاری بن کر پڑھا ۔وہ شخص کہنے لگا کہ میں ایک جگہ سے آرہا تھا کہ

میرے جیب میں پیسے نہیں تھے ۔ بچے کی ڈیلیوری ہے اس کو شہد چٹانے کے پیسے نہیں جو دائی گھر آئیگی اس دائی کو کچھ دیکر بھیجنے کے پیسے نہیں میں یقین سے پڑ ھ رہا ہوں۔اللہ تعالیٰ سے مانگ رہا ہوں کہ مولا میں مجھے تو حلال چاہیے چاہے تھوڑا کیوں نہ ہوکہنے لگا میں آرہا تھا کہ میں نے دیکھا کر کر کی آواز آئی ۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب پتے گرتے ہوئے ہوائیں ان کو جو لیکر چلتی ہیں پتوں کی لپٹنے کی ایک آواز آتی ہے ۔ جب ہوائیں ان کو زمین پر

گھسیٹتی ہیں۔میں نے محسوس کیا کہ پتوں کی آواز ہے وہ پتوں کی نہیں تھی دس کا نوٹ پچاس کا نوٹ اور سو کا نوٹ ایک دم ایسے لپٹتے ہوئے آرہے تھے میں ٹھٹھر گیا کہ میرے جیب تو پیسے ہی نہیں تھے ۔ایک طرف سو کا نوٹ دس کا نوٹ ہے ۔میرے جی میں آیا کہ میں ان کو لپیٹ لوں اور جھولی بھر لوں میں نے سوچا پتہ نہیں کس کے گرے ہوں گے میرے تو نہیں ہیں کسی کے گرے ہوں گے ہوا نے اُٹھا کے گھسیٹا اور لے آئی میں ابھی تصور ہی کررہا تھا کہ میں لے

لوں جب فیصلہ کیا تو میرے نہیں ہیں۔ہوا تیز آئی میرے پاؤں کے نیچے سے نوٹ نکال کر دور لے گئی اور نوٹ سارے میری نظروں سے اوجھل ہوگئے یقیناً وہ ہزاروں روپے تھے۔ایک پل مجھے خیال آیا کہ ایک نوٹ تو اُٹھا لیتا آج بڑی اشد ضرورت تھی پھر خیال آیا نہیں زندگی کا مقصد کچھ اور ہے۔جب میں گھر گیا تو بیوی ڈلیوری کی تکلیف تھی میں بھاگ کر دائی کو لے آیا دائی ابھی گھر میں آئی نہیں تھ بچہ پہلے پیدا ہوگیا۔ گھر میں نے بیوی سے پوچھا کچھ ہے کہنے

لگی سوا روپیہ پڑا ہے میں لے آیا اور دائی کے ہاتھ میں رکھ دیا بچا تو ہوگیا۔پیسے لیکر اس نے بچے کو صاف کیا ۔اس کے بعد دائی چلی گئی ۔میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر ایک آواز آرہی تھی کہ آج تونے ہمارے ساتھ بڑا عجیب معاملہ کیا تونے حلال وحرام جائز ناجائز کو دیکھا انشاء اللہ تجھے بھر دیں گے صبر کرلینا بے صبر نہ ہونا ۔وہ کہنے لگا ایک ایسا وقت آیاکہ میں ساڑھے سترہ ہزار کے کپڑے پہن رہا تھا۔رب نے رزق حلال کے دروازے کھول دیے

۔ جب زندگی کا مقصد سامنے ہوتا ہے ۔ پھر بہت کچھ چھوڑنا اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ بہن کو حصہ دینا اور بھائی کو حصہ دینا راحت محسوس ہوتی ہے ۔اگر تنازع ہوگیا ہے کہ اب رشتے جاتے ہیں دولت آتی ہے اگر دولت جاتی ہے تو رشتے بچتے ہیں۔ رشتوں کو بچا لیتا ہے دولت کو چھوڑ دیتا ہے چاہے وہ زمین ہے چاہے دکان ہے رشتوں کو بچا لیتا ہے اس رشتے کے بچانے میں رب اوپر سے قلم پھیر کر فیصلے کررہا ہوتا ہے مقدر اور تقدیر کے ۔اے میرے

بندے کوئی بات تیری زندگی میں چار دن کے دکھ ہوں گے یا تجھے یا تیری نسلوں کو دکھاؤں رزق دولت عزت صحت خوشیاں کامیابیاں دکھاؤں گا۔

اپنی رائے کا اظہار کریں