کسی جائز غرض مثلاً تجارت، کھانے یا انستا حاصل کرنے وغرڑہ کے لےے کبوتر پالنا جائز ہےبشرط یہ کہ ان کے دانہ، پانی کا بروقت انتظام کار جائے اور ان کو بھوکا پا سا نہ رکھا جائے۔ باقی محض کبوتر بازی کے مشغلہ کی غرض سے کبوتر پالنا اور کبوتر بازی کرنا درست نںی ہے۔ مرغاھں پالنا جائز ہے۔ سفدا مرغ سے متعلق کوئی مستقل اَحکام نہں ہںا، البتہ سفد مرغ پانے کی فضلتں وارد ہے، اور بعض روایات مںر آپ ﷺ کے پاس سفد مرغ کا ہونا منقول ہے۔(سرلتِ حلبہی) لکن محققنب نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے،لہٰذا اسے باکن کرنا درست نہںت ہے۔آج جس موضوع کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ بہت ہی پیارا موضوع ہے اور اہم معلو مات دینی معلو مات اس میں شئیر کر یں گے ہم آپ کے ساتھ ہر وہ گھر والے جو کتا پالتے ہیں تو روزانہ ان کی اعمال میں ایک کیرات کی کمی ہو تی ہے۔ مگر وہ کتا جو شکار کے لیے یا فصل یا کھیتی باڑی کی رکھوالی ہو حفاظت کے لیے ہو یا مویشیوں کی حفاظت کے لیے پالتے ہیں وہ جا ئز ہیں تو معلوم ہوا کہ صرف شکاری کتا اور اپنے گھر و مال کی حفاظت کے لیے کتا پالنا جا ئز ہے۔ اس کے علاوہ بلا ضرورت کتا پالنا جائز نہیں ہے۔ ایک اور روایت میں ہے ۔ کہ جس گھر میں کتا ہو اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہو تے آج ہم آپ کو کتے کو گھر میں نہ رکھنے اور سفید مرغ کو گھر میں رکھنے کے بارے میں بہت اہم معلومات دینے جا رہے ہیںجو کہ ہمارے نبی پاک ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے۔ ام المو منین حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن صبح کو اُٹھے تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ تھوڑے چپ چپ تھے۔ یعنی جیسے کوئی رنجیدہ نہیں ہو تا ویسے نبی پاک ﷺ کے چہرے پر آثار تھے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آج میں نے آپ کے چہرے کو جس طرح دیکھا ایسا میں نے آپ کا چہرہ آج تک نہیں دیکھا یعنی آپ کے چہرے پر رپیشانی اور رنجیدگی کے آثار تھے غمی کے آثار مجھے نظر آ ئے تو نبی کریم ﷺ نے فر ما یا اے میمونہ جبرائیل ؑ نے مجھ سے آج رات ملنے کا وعدہ کیا تھا مگر آج رات ملنے نہیں آ ئے اور با خدا انہوں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی تو حضرت میمونہ کہتی ہیں کہ پھر سارا دن آپ اسی طرح رہے۔ اس کے بعد آپ کے دل میں خیال آیا تو ایک کتے کا بچہ جو ہمارے ڈیرے میں تھا وہ نکال کر باہر کیا گیا پھر آپ نے پانی لیا اور پانی کو اس کتے کے بیٹھنے کی جگہ پر چھڑک دیا۔
اپنی رائے کا اظہار کریں