مرد اور عورت دونوں نسل انسانی کے ایسے ستون ہیں کہ جن میں سے ایک کو بھی اس کی جگہ سے سرکا دیا جائے تو انسانی معاشرہ کا ڈھانچہ قائم نہیں رہتا۔ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو اپنی قدرت خاص سے پیدا فرمایا اور ان دونوں کے ذریعے نسل انسانی کو دنیا میں
بڑھا پھیلا کر مرد اور عورت کے درمیان ذمہ داریوں اور فرائض کی فطری تقسیم کر دی، دونوں کا دائرہ کار متعین کر دیا اور دونوں کے باہمی حقوق کو ایک توازن اور تناسب کے ساتھ طے فرما دیا۔مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی اس تقسیم کا تعلق تکوینی امور سے بھی ہے جو نسل انسانی کی تخلیق کے ساتھ ہی طے کر دیے گئے ہیں اور ان میں انسان کوشش بھی کرے تو کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ مثلاً مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوت و جاہ، جرأت و
بہادری اور سختی و مضبوطی کا پیکر بنایا ہے جبکہ عورت اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے اس کے برعکس ہے، اس میں ملائمت ہے، انفعال ہے، کمزوری ہے اور کسی مضبوط پناہ کے حصار میں رہنے کا فطری جذبہ ہے۔ یہ ایک ایسا واضح فرق ہے جو زندگی کے تمام افعال و احوال میں جاری و ساری نظر آتا ہے اور جسے کوئی منطق، کوئی سائنس اور کوئی خودساختہ معاشرتی فلسفہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ نسل انسانی کی نشوونما کے لیے خالقِ کائنات نے مرد
اور عورت کے جنسی ملاپ کو ذریعہ بنایا اور اس ملاپ کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے دونوں میں محبت کا جذبہ پیدا کیا۔ مرد اور عورت کے درمیان محبت کے اظہار میں اللہ تعالیٰ نے مرد کی بالادستی اور عورت کے انفعال کے فطری فرق کو قائم رکھا اور ملاپ میں بھی مرد کو بالادستی بخشی۔ یہ بھی ایسا واضح اور محسوس فرق ہے جس کا نہ انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی منطقی یا سائنسی فارمولا کے ذریعے اسے بدلا جا سکتا ہے۔نسل انسانی کو
بڑھانے کے مشترکہ عمل میں بھی اللہ رب العزت نے دونوں کے فرائض الگ الگ متعین کر دیے۔ عورت کے ذمے بچہ کے بوجھ کو پیٹ میں اٹھانا، پیدائش کے بعد اس کو گود میں لینا اور ہوش سنبھالنے تک اس کی تمام چھوٹی موٹی ضروریات و حوائج خود سرانجام دینا ہے۔ جبکہ مرد کو ان تینوں کاموں سے رب العزت نے آزاد رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ باقی امور اس کے ذمہ ہیں کہ وہ بچہ اور اس کی ماں کے اخراجات کا بوجھ اٹھائے گا، ان کی حفاظت و نگرانی کرے گا
اور معاشرہ کے ساتھ ان کے رابطہ و تعلق کا ذریعہ بنے گا۔ یہ فرق اور تقسیم بھی ایسی ٹھوس ہے کہ تبدیلی اور تغیر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یورپی معاشرت نے عورت کی آزادی اور اس کے احترام کی بحالی کے نام سے اس فرق کو مٹانے کی سرتوڑ کوشش کی ہے لیکن اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلا کہ عورت کی ذمہ داریوں اور فرائض میں اضافہ ہوگیا ہے۔ عورت خود کو بچے کی پیدائش اور پرورش کے بوجھ سے تو آزاد نہیں کرا سکی
البتہ اخراجات کی کفالت کی ذمہ داری میں مرد کے ساتھ شریک ہوگئی ہے۔ اس طرح دنیا بھر میں یورپی معاشرت کے پیروکار مردوں نے مزید کسی ذمہ داری کا بوجھ اپنے اوپر لیے بغیر اپنی ذمہ داریوں کا نصف بوجھ بھی عورت پر ڈال دیا ہے اور ناقص العقل سادہ عورت آزادیٔ مساوات اور زندگی کی دوڑ میں کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے خوشنما اور دلفریب نعروں سے دھوکا کھا کر دوہری ذمہ داریوں کے چکر میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اسلام ایک فطری
نظامِ حیات ہے جو اسی خالق و مالک نے عطا فرمایا ہے جس نے مرد اور عورت کے درمیان فرائض و حقوق کی تکوینی تقسیم کی ہے، اسی لیے اسلام کے شرعی اور قانونی احکام کی بنیاد بھی اس تکوینی تقسیم کے فطری تقاضوں پر ہے۔ اور اس وقت دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا نظام ہے جو عورت اور مرد کے درمیان حقوق و فرائض کی شرعی اور قانونی تقسیم دونوں کے تخلیقی فرق اور تکوینی ذمہ داریوں کے عین مطابق کرتا ہے اور اس کے ذریعے ایک خوشحال،
پرسکون اور پر امن معاشرہ کی ضمانت دیتا ہے۔ ورنہ بیشتر مروجہ معاشرتی اقدار کی بنیاد اس فطری اور تکوینی فرق سے فرار اور انحراف پر ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فرق تو کسی سے مٹ نہیں پا رہا مگر اس سے انحراف اور فرار پر مبنی معاشرتی بے چینی، نفسیاتی پیچیدگیوں اور ذہنی الجھنوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یورپی تہذیب و معاشرت نے آزادی اور مساوات کے نام پر جہاں عورت کو اس غلط فہمی میں ڈالا کہ ملازمت کرنا اس کا حق ہے،
حالانکہ ملازمت حق نہیں ذمہ داری ہے، اسی طرح حکمرانی اور قیادت کو حقوق کی فہرست میں شامل کر کے عورت کو اس دوڑ میں بھی شریک کر دیا۔ جبکہ اسلام اس فلسفہ کو تسلیم نہیں کرتا، اسلام یہ کہتا ہے کہ گھر کے اخراجات فراہم کرنے کے لیے ملازمت کرنا حقوق سے نہیں بلکہ ذمہ داریوں سے تعلق رکھتا ہے، اور مرد اور عورت کے درمیان ذمہ داریوں کی فطری تقسیم میں یہ ذمہ داری مرد کے کھاتے میں ہے۔ اسی طرح حکمرانی اور قیادت کا شمار بھی
حقوق میں نہیں بلکہ ذمہ داریوں اور فرائض میں ہوتا ہے اور اسلام عورت کے طبعی اور فطری فرائض اور ذمہ داریوں سے زائد کسی ذمہ داری اور فرض کا بوجھ اس کے نازک کندھوں پر نہیں ڈالنا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانی کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے اور عورت کو اس سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ انسانی معاشرت کے اسلامی فلسفہ اور آج کے مروجہ نظریات میں یہی بنیادی فرق ہے کہ اسلام حکمرانی کو ذمہ داری قرار دیتا ہے جبکہ موجودہ سیاسی
نظاموں نے اسے حقوق میں شامل کر کے اس خودساختہ حق کے لیے مختلف انسانی طبقات کو مسابقت کی دوڑ میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ حقوق و فرائض کے درمیان کوئی خطِ امتیاز باقی نہیں رہا۔ اس پس منظر میں جب ہم عورت کی حکمرانی کے بارے میں اسلام کے احکام پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان لوگوں کی منطق میں کوئی وزن دکھائی نہیں دیتا جو مغرب کی معاشرتی اقدار کو اپنے معاشرے پر منطبق کرنے کے شوق میں نہ صرف مرد اور عورت کے درمیان
مساوات اور عورت کی نام نہاد آزادی کا پرچار کر رہے ہیں بلکہ اس کے لیے اسلام کے واضح احکام کو توڑ موڑ کر پیش کرنے اور انہیں خودساختہ معانی پہنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ چنانچہ ان دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک خاتون کی حکمرانی کے حوالہ سے یہ بحث چل رہی ہے کہ شرعاً کسی عورت کو حکمران بنانا درست ہے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن و سنت اور اجماع امت کی واضح تصریحات کے باوجود کچھ حضرات اس کوشش میں مصروف
دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں سے عورت کی حکمرانی کے جواز میں دلائل کشید کیے جائیں تاکہ مغربی تہذیب و معاشرت کی پیروی کے شوق اور عمل کو شرعی جواز کی چھتری بھی فراہم کی جا سکے۔ اسی لیے یہ ضروری محسوس ہوا کہ عورت کی حکمرانی کے بارے میں شرعی احکام کو وضاحت کے ساتھ قارئین کے سامنے لایا جائے اور ان خودساختہ دلائل کی حقیقت بے نقاب کر دی جائے جو اس مسلمہ اجماعی مسئلہ کو مشکوک بنانے کے لیے مختلف
حلقوں کی طرف سے پیش کیے جا رہے ہیں۔اسلام میں کسی بھی مسئلہ کے شرعی ثبوت کے لیے مسلمہ اصول چار ہیں جنہیں دلیل کے طور ر پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن کریمسنتِ نبویؐاجماع امتاجتہاد و قیاسہم ترتیب کے ساتھ اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں ان چاروں دلائل کو پیش کریں گے کہ کسی عورت کو حکمران بنانا شرعاً جائز نہیں ہے۔(۱) قرآن کریماللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی اس فطری تقسیم
کو واضح کا ہے۔ ان سب آیات کریمہ کو اس موقف کے حق میں منطقی استدلال کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ہم ان میں سے دو آیات کریمہ کا حوالہ دیں گے۔حکمرانی کا تصور اسلام میں ’’خلافت‘‘ کا ہے کہ انسانی معاشرہ میں کوئی بھی حکمران خودمختار نہیں بلکہ حکمرانی میں خدا تعالیٰ کا نائب ہے۔ اصل حکمرانی اللہ تعالیٰ کی ہے اور انسان اس کا نائب ہے جو اپنی مرضی سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے احکام و قوانین کے مطابق انسانی معاشرہ پر حکومت کرتا
ہے، اسی کا نام ’’خلافت‘‘ ہے۔ جب تک انبیاء کرام علیہم السلام کی تشریف آوری کا سلسلہ جاری رہا، خلافت کا یہ منصب زیادہ تر حضرات انبیاء کرامؑ ہی کے پاس رہا۔ چنانچہ امام بخاریؒ نے کتاب الامارۃ میں حضرت ابوہریرہؓ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کا اظہار یوں فرمایا ہے کہ’’بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت کا فریضہ انبیاء کرام علیہم السلام سرانجام دیتے تھے، جب ایک نبیؑ دنیا سے چلے جاتے تو دوسرے
نبیؑ ان کی جگہ لے لیتے۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے۔‘‘ یعنی خلافت و حکومت دراصل انبیاء کرامؑ کی نیابت کا نام ہے اور اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں صراحت کر دی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر بھیجے گئے وہ سب مرد تھے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ۔اور ہم نے آپؐ سے قبل رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر صرف مردوں کو جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔اس لیے جب نبی
صرف اورصرف مرد آئے ہیں تو ان کی نیابت بھی صرف مردوں میں ہی محدود رہے گی۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰەُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔مرد حکمران ہیں عورتوں پر، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔یہ آیت کریمہ اس بارے میں صریح ہے کہ جہاں مردوں اور عورتوں کا مشترکہ معاملہ ہوگا وہاں حکمرانی مردوں ہی کے حصہ میں آئے گی اور یہی وہ فضیلت ہے جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر
عطا فرمائی ہے۔ اس آیت کریمہ کے بارے میں بعض حضرات کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ آیت کریمہ خاندانی احکام و قوانین کے سیاق و سباق میں ہے اس لیے اس سے مراد مطلق حکمرانی نہیں بلکہ خاندان کی سربراہی ہے جو ظاہر ہے کہ مرد ہی کے پاس ہے۔ لیکن ان کا یہ استدلال دو وجہ سے غلط ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ عورت کی حکمرانی کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات کی روشنی میں جب ہم اس آیت کریمہ کا مفہوم متعین کریں
گے تو اسے خاندان کی سربراہی تک محدود رکھنا ممکن نہیں رہے گا بلکہ خاندان کی سربراہی کے ساتھ مطلق حکمرانی بھی اس کے مفہوم میں شامل ہوگی۔ یہ ارشادات نبویؐ ہم آگے چل کر نقل کر رہے ہیں۔دوسرا اس وجہ سے کہ امت کے معروف مفسرین کرامؒ نے اس آیت کریمہ کی جو تفسیر کی ہے اس میں علی الاطلاق ہر قسم کی حکمرانی عورت کے لیے نفی کی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:ولھذا کانت النبوۃ مختصة بالرجال وکذلک
الملک الاعظم وکذا منصب القضاء وغیر ذلک۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۴۹۱)اور اسی وجہ سے نبوت مردوں کے ساتھ مخصوص ہے اور اسی طرح حکومت اور قضا کا منصب بھی انہی کے لیے خاص ہے
اپنی رائے کا اظہار کریں