;دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے خانہ کعبہ سے مقدس جگہ او ر کوئی ہونہیں سکتی ۔ خانہ کعبہ تمام مسلمانوں کےلیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ خانہ کعبہ کی خدمت ایک عین فریضہ ہے جو خوش نصیب لوگوں کو ہوتا ہے ۔ خانہ کعبہ کو آپ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر سن آٹھ ہجری میں بنو شیما سے تعلق رکھنے
عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو چابی دے کر اس کے سپرد کیا اس کے ساتھ اللہ کے نبی نے اعلان فرمایا کہ یہ اب ہمیشہ کےلیے بن وشیما کے پاس رہے گی۔ ا س کو اب ظالم شخص کے سوا کوئی نہیں چھینے گا۔ اس دن سے لے کر آج تک بنو شیما کے فرزندان کو ہی کعبہ کا قلید بردار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تاہم حرمین شرمین کے امور کے محقق مح الدین کے مطابق تاریخی طورپر کعبہ کی خدمت کا آغاز حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ؑ کے زمانہ سے شروع ہوا
ہے۔ جب انہوں نے بیت اللہ کی بنیادیں قائم رکھیں۔ انہوں نے بیت اللہ کو کھولنا ، صاف کرنا، غسل کرنا اور بیت اللہ کی نگرانی کر نا شامل تھا۔ایک بار حضور اکرمﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہونے لگے تو میں نے دروازے بند کردیا اور آپ ﷺ کو کچھ نازیبا کہا آپﷺ نے میرے اس حرکت کو برداشت کیا اور فرمایا عثمان ایک دن آئے گا تو دیکھے گا یہ چابی میر ے ہاتھ میں ہوگی میں جسے چاہوں گا دوں گا۔ میں نے یہ کہا یہ تب ہوگا جب قریش ہلاک ہوجائیں گے۔ آپﷺ نے
فرمایا نہیں اس دن قریش زندہ ہوں گے اورعزت پائیں گے ۔ آپﷺ نے خانہ کعبہ میں داخل تو ہوگئے مگر آپ ﷺ میرے دل میں جم گئی اور میں نے یقین کرلیا کہ آپﷺ نے فرما یا کہ یہ ایک دن ہوکر رہے گا۔ اس کے بعد سن آٹھ ہجری کےفتح مکہ کے روز رسول اکرمﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عثمان بن طلحہ کے پاس بھیجا تاکہ ان سے بیت اللہ سے چابی لے لیں تو انہوں نے ناپسندیدگی سے حضرت علی کے حوالے کردیےاور حضرت محمد ﷺ نے بیت اللہ کو
کھولا اور تمام بتوں کو توڑا ڈالا اور اس کو آب زم زم سے دھویا۔ اور اس میں دو رکعت نماز پڑھی۔ یہی سے غسل کعبہ کا آغاز ہوا۔ اس وقت کے موقع پر سورت النساء کی آیت نازل ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دواور جب لوگوں کے درمیا ن فیصلہ کر و تو انصاف سے فیصلہ کرو بے شک اللہ تمہیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ جب آپ ﷺ نے مکہ فتح کیا تو اطمینان کے ساتھ بیت اللہ کا تشریف
لائے اور اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر طواف کیا ۔ اور طواف کے دوران ہجرہ اسود کو رشک کی وجہ سے لکڑی سے چھوا اس کے بعد عثمان بن طلحہ کو جن کے پاس چابی تھی کو بلایا ان سے چابی طلب کی اور دینا چاہی اتنے میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا حضور اکرمﷺ اب یہ چابی مجھے سونپ دیں۔ تاکہ میرے گھر میں کعبہ کےلیے آب زم زم اور کعبہ کی گنجی رکھنا دونوں ہی باتیں رہے۔ یہ سنتے ہی عثمان بن طلحہ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ آپ ﷺنے چابی طلب کی تو
دوبارہ وہی واقعہ ہوا۔ آپ ﷺ نے دوبارہ طلب کی تو عثمان بن طلحہ نے یہ کہہ کر اللہ کی امانت آپ کو واپس دیتا ہوں اور چابی دیدی۔ نبی کریم ﷺ کسی بھی ایک نماز کے بعد یہ پڑھ لو، پورا ہفتہ رزق کی کمی نہیں ہوگی ، اتنا ملے گا کہ ختم نہیں ہوگا” ;
اپنی رائے کا اظہار کریں