اگر آپ تنگ دستی اور رزق میں کمی کا شکار ہیں تو ہم آپ کو یہاں نہایت مجرب عمل بتانے جا رہے ہیں جس کے کرنے سے نہ صرف آپ مالا مال ہو جائیں گے بلکہ رزق میں برکت کےدروازے بھی آپ پر کھول دئیے جائیں گے۔ وظیفے پر عمل کرنے سے پہلے ان چند باتوں کا خاص خیال رکھیں، پانچ وقت نماز کی ہر حال میں پابندی کریں، تمام انسانوں اور کلمہ گو سے محبت رکھیں اور فرقہ وارانہ یا متعصبانہ خیالات کو ذہن سے نکال دیں تاکہ جب آپ رب کی
.مخلوقسے اخلاص اور محبت رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی آپ سے محبت رکھیں گے۔ آپس کی رنجشوں کو ختم کریں، جھوٹ بولنے سے گریز کریں، صدقہ و خیرات بھی کرتے رہیں۔جو شخص کاروبار میں مندی اور ملازمت کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہو یا ملازمت میں ترقی کا خواہش مند ہو ، اگر کسی مشکل میں پھنسا ہو تو یہ وظیفہ خاص اس کیلئے ہے ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ آٹے کی سو گولیاں جو انگور کے دانہ کے برابر ہوں بنا لے، اور انہیں دھوپ میں
سکھا لے یا بغیر سکھائے ہر جمعرات کے دن عشا کی نماز پڑھنے کے بعد ان آٹے کی ہر ایک گولی پر ایک مرتبہ آیت کریمہ لا الہ الا انت سبحٰنک ان کنت من الظلمین پڑھے، اس طرح سو مرتبہ آیت کریمہ پڑھنے کی تعداد ہو جائے گی، اس عمل کے اول و آخر گیارہ مرتبہ درود ابراہیمی پڑھے۔ اس کے بعد ان گولیوں کو دریامیں یا صاف بہتے پانی میں بہاد یں۔ اس عمل کی بدولت بہت سے افراد نے اپنی مراد پائی ہے اور اللہ نے انہیں اپنے خزانوں سے غنی بنا دیا محفل میں
دوران تقریب کچھ باتیں ہوئی ںایک صاحب کہنے لگے، آپ نے اتنی باتیں کرلیں ذرا یہ تو بتایئے کہ نماز میں دو سجدے کیوں ہیں؟میں نے کہا : مجھے نہیں معلوم۔کہنے لگے: یہ نہیں معلوم تو پھر آپ کو معلوم ہی کیا ہے؟ اتنی دیر سے آپ کی باتیں سن کر محسوس ہورہا تھا کہ آپ علمی آدمی ہیں لیکن آپ تو صفر نکلے۔ میں نے کہا: جناب! میں صفر نکلا نہیں، میں صفر ہوں! میں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ مجھے بہت کچھ آتا ہے۔ کہنے لگے: اب سنیئے کہ نماز میں دو
سجدے کیوں ہیں! ایک سجدہ اسلیئے کہ جب اللہ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ حضرت آدم کو سجدہ کریں تو تمام فرشتے سجدے میں چلے گئے تھے۔ جب فرشتےسجدے سے اٹھے اور دیکھا کہ سجدہ نہ کرنے پر شیطان کو تا قیامت وعید ہوئی تو انہوں نے ایک اور سجدہ شکرانہ ادا کیا کہ ہم حکم عدولی والوں میں نہ تھے۔ میں نے کہا: بہت شکریہ جناب! آپ نے میری معلومات میں اضافہ کیا، میں اس کی تحقیق میں نہیں جاؤنگا کہ آیا یہ بات حسب واقعہ ہے بھی یا نہیں،
لیکن ایک سوال میری طرف سے بھی۔ اگر کسی شخص سے نماز میں ایک سجدہ چھوٹ جائے تو کیا اس کی نماز ہوجائے گی؟کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم۔ میں نے پوچھا: جناب! کیا ہمیں پہلے وہ معلومات حاصل نہ کرنی چاہیئیں جن سے زندگی میں اکثر و بیشتر پالا پڑتا ہو یا پڑنے کی امید ہو۔؟۔اس پر وہ بحث کرنے لگے۔بہرحال ان صاحب نے تو وہ بات نہ مانی لیکن میں یہ سمجھ چکا تھا کہ لوگوں کے دماغ میں “علمیت” کا معیار کیا ہے؟یقین کیجئے میں نے
مسجدوں کیدیواروں ہر قران و حدیث کی بجائے کفر و گستاخی کے فتوے آویزاں دیکھے۔ میں نے کارپینٹر اور مستری کے درمیان “علم غیب” کے مسئلے پر بحث ہوتے دیکھی ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو مسلکی ویڈیوز شیئر کرتے دیکھا ہے جن کو غسل کے فرائض تک نہیں معلوم۔حدیث میں آتا ہے: “اختلاف العلماء رحمۃ”علماء کا اختلاف رحمت ہے۔مجھے لگتا ہے یہ حدیث مجھے اپنے اندر چھپے ایک اور معانی بتا رہی ہے اور وہ ہے: “اختلاف
الجہلاء زحمۃ”جاہلوں کا اختلاف زحمت ہے۔بھائیو دوستو بزرگو کیونکہ علم والے جب اختلاف کرتے ہیں تو غور و فکر کے دروازے کھلتے ہیں اور دلائل کے انبار لگتے ہیںجبکہ جاہل جب اختلاف کرتے ہیں تو بحث و تکرار کے در وا ہوتے ہیں اور گالیوں کے ڈھیر لگتے ہیں.
اپنی رائے کا اظہار کریں