حضرت محمد ﷺ کے دور میں عرب ایک غیر مہذب قوم کی جگہ تھی۔ جس میں بنیادی اختیارات بھی نہیں تھے۔ جب حضرت محمدﷺ نے اسلام کی دعوت دینا شروع کی۔ توانہوں نے لوگوں کو بتایا کہ وہ بتوں کی پوجا سے دور رہ کرایک اللہ عبادت کریں۔ آپﷺ نے دنیا کے مختلف ممالک کے بادشاہوں اور حکمرانوں کو دعوت نامے بھیجےاورانہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ متعدد
خطوط پر مثبت ردعمل سامنے آیا۔ جبکہ دیگر نے مسترد کردیا تھا۔ متعدد جگہوں پر، صحابیوں کے ساتھ بدتمیزی اوربرا سلوک کیا گیا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان حالات سے پریشان نہیں ہوئے کیونکہ وہ لوگوں کو صحیح راہ کی طرف راغب کررہے تھے اور کچھ بھی انکو اسلام کے تبلیغ سے روک نہیں سکتا تھا۔ ہرکیولس اس وقت رومن سلطنت کا بادشاہ تھا۔ اوراس وقت اپنے دربار میں فارسیوں پر اپنی فتح کا جشن منا رہا تھا۔ تب ہی حضورﷺ کا پیغام لے کر قاصدہرکیولس کے دربار میں پہنچا ۔ ہرکیولس کے مترجم نے اس خط کو پڑھ کر ہرکیولس کو سنایا تب ہرکیولس نے اس کی عدالت میں موجود افراد سے پوچھا کہ اسوقت اس شہر کے اندر کوئی عرب کے شہر کا شخص موجود ہے یا نہیں۔ ابو سفیان قبیلہ قریش کا پیشوا تھا اور نبی ﷺ کا دشمن تھا اس وقت روم میں تجارتی سفر پر تھا۔ جو اپنے ساتھیوں کو لے کر اس کے دربار میں پیش ہوا۔ ہرکیولس نے ابو سفیان سے پوچھا ، “محمد کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے؟” “معزز خاندان سے”، ابو سفیان نے جواب دیا۔ ہرکولیس نےپھرپوچھا! “کیا اس کے خاندان میں کوئی بادشاہ رہا ہے؟” ۔ پھر ابو سفیان نے جواب دیا “نہیں، جن لوگوں نے اس کے عقیدے کو قبول کیا ہے وہ غریب ہیں یا امیر؟”
، ہرکیولس نے ایک بار پھر سوال کیا۔ ابو سفیان نے جواب دیا ، “وہ غریب لوگ ہیں”۔ ہرکیولس زیادہ دلچسپی سے اورسوالات پوچھتا رہا۔ اس کا اگلا سوال تھا، کہ “کیا اس کے پیروکار زیادہ ہیں یا کم ہیں؟” ابو سفیان نے جلد ہی جواب دیاکہ “بڑھتے جا رہے ہیں۔ “کیا تم نے اسے جھوٹ بولتے سنا ہے”؟ ہرکیولس نے پوچھا۔ “نہیں” ، ابو سفیان نے جواب دیا۔ “کیا وہ کبھی بھی اپنے لوگوں کے خلاف جاتا ہے؟ “ہرکیولس نے پھر پوچھا۔ ابو سفیان نے اس بار تھوڑا وسیع جواب دیا، “ہمارے اور انکے درمیان جنگ کے بعد معاہدہ ہوا ہے لیکن اب دیکھنا ہے کہ محمد ﷺ اسکو پورا کرتے ہیں یا نہیں۔” “کیا تم نے کبھی جنگ میں ان کا مقابلہ کیا ہے؟” ہرکیولس نے سوال کیا۔ “ہاں” ، ابو سفیان نے جواب دیا ” جنگ کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟” ہرکیولس کی دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ ابو سفیان نے جواب دیا ، “کبھی ہم جیتے ہیں اور کبھی وہ کیا تعلیم دیتا ہے؟” ہرکیولس نے پوچھا! ابو سفیان نے جواب دیا کہ وہ کہتے ہیں کہ “ایک خدا کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ شریک نہ ٹہراؤ ، نماز پڑھو ، پاک صاف رہو ، ہمیشہ سچ بولو اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔” یہاں تک کہ ابو سفیان اپنے جواب پر ہی حیران رہ گئے کیونکہ انکو ایسا لگا کہ جیسے وہ اسلام کی تبلیغ کررہے تھے۔ ہرکیولیس کھڑا ہوا اور کہا ، تو مجھے یقین ہے کہ یہ وہ ہی پیغمبر ہیں جس کا مجھے انتظارتھا۔ مجھے یقین تھا کہ پیغمبر آ رہے ہیں لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ وہ عرب کی سرزمین پر آئیں گے۔ اگر میں وہاں ہوتا تو اسلام قبول کرتا اور نبیﷺ کے پاؤں اپنے ہاتھ سے دھوتا۔
اس طرح پیغمبرﷺ نے اسلام کو پھیلایا ۔ انہوں نے اپنی ایمانداری ، دیانت داری ، نہایت نیک کردار اورایک اللہ پر ایمان سے انھیں متاثر کیا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو زبردستی جنگوں کا ڈر دکھا کر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا ، اور نہ ہی لوگوں کو تلوار کے زور پر اسلام قبول کرنے پر راغب کیا۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنے دفاع کے لئے دشمنوں سے جنگ کی۔
اپنی رائے کا اظہار کریں