ایک دانشور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں ایک بڑے تعلیمی ادارے کی فرسٹ ائیرکی تقریباً پانچ سو لڑکیوں سے سیمینار کی صورت میں خود شناسی کے موضوع پر بات کر کے باہر آ رہا تھا توایک لڑکی تیزی سے میرے پیچھے آئی اور کہنے لگی “سر!۔میں آپ سے دوستی کرنا چاہتی ہوں” میں نے مسکرا کر پوچھا “وہ کیا ہوتی ہے”کہنے لگی “آپ اتنے سمجھدار ہیں سب کو سمجھاتے
ہیں آپ کو نہیں پتا دوستی کیا ہوتی ہے؟ میں نے کہا میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ماہر نفسیات ہوں اور ماہر نفسیات دوسروں کو اپنی ڈکشنری سے نہیں بلکہ اُن کو اُن کی ڈکشنری سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کیا پتہ آپ کی ڈکشنری میں دوستی کی تعریف میری ڈکشنری کی تعریف سے مختلف ہو اور جب ہم ایک دن ایک دوسرے کی ڈیفینیشنز تک پہنچ کر جانیں گے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نہ ملے۔ کہنے لگی “ہم فون پر باتیں کریں گے آپ اپنے مسائل اپنی باتیں بتانا مجھے اور میں آپ کو بتاؤں گی” تو میں نےپوچھا “تو کیا ہم ملیں گے نہیں میری ڈکشنری کے مطابق تو دوست ملتے بھی ہیں ” کہنے لگی “نہیں نہیں جب کبھی موقع ملا تو مل بھی لیں گے” میں نے حیرت سے پوچھا “موقع ملا مطلب دوست تو وقت نکال کر ملتے ہیں موقع ملنے پر تھوڑی” کہنے لگی سر آپ بھی نا۔یہ یورپ تھوڑا ہی ہے۔ میں نے کہا! اگر یہ یورپ نہیں ہے تو چھپ کر فون پر بات کرنے، موقع ملنے پر ملنے کو بھی دوستی نہیں کہتے۔ کہنے لگی میں کالج کی سب سے خوبصورت لڑکی ہوں کبھی کسی لڑکے نے میری دوستی کی دعوت پر ایسے سوال نہیں کیے۔ میں نے کہا کیونکہ ڈکشنری کے مطابق وہ لڑکے نہیں “دھوکے” ہوتے ہیں مجھے افسوس ہے کہ آپ کو آج تک دھوکے ہی ملے ہیں کوئی لڑکا نہیں مل
اپنی رائے کا اظہار کریں