رسول اللہﷺ نماز کےدوران ہمیشہ اپنےسامنےسترہ رکھ کر نماز ادافرما کرتے تھے

سترہ

پاکستان ٹپس! سترے کی اہمیت، رسول اللہ ﷺ نماز کے دوران ہمیشہ اپنے سامنےسترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتےتھے۔ نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنے آگے کوئی چیز رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگر کوئی شخص سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزر جائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گ-ن-اہ گار نہ ہو۔

ایسی چیز یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ان کے سجدہکرنے کی جگہ اورسترہ بنائی گئی دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا۔ 1۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان صرف بکری کے گزرنے کی گنجائش ہوتی۔ 2۔سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے، خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر، کسی جگہ پربھی نماز ادا کر رہا ہو۔مسجد الحرام میں نماز پڑھنے والوں کو بھی سترے کا انتظام کرنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنیٰ نہیں فرمایا ہے۔

جیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ لاَ تُصَلِّ إِلاَّ إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلاَ تَدَعْ أَحَداً يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ (صحیح ابن خزیمہ جل دوم ص9 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ۔ (صحیح ابن خزیمہ1/93/1، بسند جید) تو کبھی بھی سترہ رکھے بغیر نماز نہ پڑھ اور (پھر) کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے ، اگر وہ (گزرنے والا) باز نہ آئے تو اس سے لڑ، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے۔ سترے کے قریب کھڑے ہوکر نماز اد اکرنا شیطان کی وسوسہ اندازی سے بچنے کا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ (صحیح سنن ابی داؤد حدیث695، والبزار(ص54۔ زوائدہ)، و الحاکم و صححہ، و وافقہ الذھبی و النووی)

جب تم میں سے کوئی (شخص) سترے کی طرف نماز پڑھے، تو اس کے قریب ہو جائے (تاکہ) شیطان (وسوسہ اندازی کر کے ) اس کی نماز ( میں توجہ اور خشوع و خضوع ) نہ توڑ دے۔کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم مسجد میں نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار ستون کے قریب کھڑے ہو کر اسے سترہ بنا لیتے اور نماز ادا فرماتے تھے۔ 3۔اور جب کبھی ایسے کھلے میدان میں نماز ادا فرماتے، جہاں کوئی چیز سترہ بنانے کے لیے موجود نہ ہوتی، تو اپنے سامنے نیزہ گاڑ لیتے، پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور صحابہ کرام ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کرتے۔4۔کبھی کبھار اپنی سواری کو سامنے بٹھا کر اس کے پہلو کی طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے۔

5۔البتہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا۔6۔اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر بھی نماز ادا فرمائی-7- ایک مرتبہ ایک درخت کو سترہ بنایا-8-سترے کی مقدار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا: إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی ) جب تم میں سے کوئی (شخص) نماز ادا کرتے وقت اپنےسامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر( اونچائی) میں کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لیا کرے۔ اور کچھ پرواہ نہ کرے کہ اس (کے سترے کے ) دوسری جانب کون گزر رہا ہے۔ اس حدیث سے جہاں سترے کی کم از کم اونچائی معلوم ہوتی ہے، وہیں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے، کہ زمین پر خط کھینچ کر

اسے سترہ قرار دینا درست نہیں ہے۔ سنن ابی داؤد میں جو حدیث اس بارے میں آئی ہے وہ ضعیف ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریباً ڈیڑھ بالشت) ہو۔ زمین میں لاٹھی گاڑ کر اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے، درخت، ستون،اور پہلو کی طرف سے سواری کے جانور کو بھی سترے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بیٹھے یا لیٹے ہوئے شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکتی ہے۔

اپنی رائے کا اظہار کریں