حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان کے مرنے کے بعد اس کا تعلق اس ظاہری اور دنیوی عالم سے نہیں رہتا، بلکہ اس کا تعلق ایک اور عالم سے ہوجاتاہے، جس کوعالمِ برزخ (اورعرفِ عام میں عالمِ قبر) کہتے ہیں،اب جوکچھ اس پرگزرتاہے-وہ دنیوی عالم میں نہیں، بلکہ اس دوسرے عالم میں ہوتاہے اوراس دوسرے عالم کواللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے عام انسانوں سے مخفی رکھاہواہے؛ لہٰذا اس پر اچھا یابُرا جو کچھ گزرتا ہے، اس کا اس دنیا میں مشاہدہ عام طور پرنہیں ہوتا، مردہ ہمارے سامنے ہوتا ہے
اور اس پر عذاب یاراحت کامعاملہ ہوتاہے؛ مگر اس کے باوجود چوں کہ یہ معاملہ عالمِ برزخ کاہے؛ اس لیے ہم کو محسوس و مشاہد نہیں ہوتا اور ہمارے نہ دیکھنے یا محسوس نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ مردے کو تکلیف یا راحت محسوس نہیں ہو رہی، بلکہ اسے راحت اور تکلیف بھی محسوس ہوتی ہے،لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ نے ہم-سے مخفی رکھا ہے، تاکہ ایمان بالغیب باقی رہنے کی بدولت انسان اجر و ثواب کا مستحق بھی ہو اور اس کی آزمائش بھی ہو۔ بہرحال جب انسان کے جسم سے روح نکل جاتی ہے تو اگر وہ نیک ہے تو نیک ارواح کا اصل مستقر اور ٹھکانہ “علّییّن” ہے (مگر اس کے درجات بھی مختلف ہیں)، بد ارواح کا اصل ٹھکانا “سجّین” ہے
اور ہر روح کا ایک خاص تعلق اس کے جسم کے ساتھ کردیا جاتا ہے، خواہ جسم قبر میں مدفون ہو یا دریا میں غرق ہو، یا کسی درندے کے پیٹ میں، الغرض جسم کے اجزاء جہاں جہاں ہوں گے روح کا ایک خاص تعلق ان کے ساتھ قائم رہے گااور اسی خاص تعلق کا نام برزخی زندگی ہے، جس طرح سورج کی روشنی سے زمین کا ذرہ چمکتا ہے، اسی طرح روح کے تعلق سے جسم کا ہر ذرہ ”زندگی“سے منور ہوجاتا ہے، اگرچہ برزخی زندگی کی حقیقت کا اس دنیا میں معلوم کرنا ممکن نہیں۔
اپنی رائے کا اظہار کریں