حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ایک پرہیز گار نوجوان تھا وہ مسجد میں گوشہ نشین رہتا اور اللہ کی عبادت میں مصروف رہتا تھا حضرت عمر ؓ کو وہ شخص بہت پسند تھا اس جوان کا بوڑھا باپ زندہ تھا اور وہ شخص عشاء کی نماز کے بعد اپنے بوڑھے باپ سے ملنے روزانہ جایا کرتاتھا راستہ میں ایک عورت کا مکان تھا وہ اس نوجوان پر فریفتہ ہوگئیاور بہکانے لگی روزانہ دروازے پر کھڑی رہتی
اور اسے بہکایا کرتی ایک رات اس شخص کا گذر ہوا تو اس عورت نے بہکانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ شخص اس کے پیچھے ہوگیا جب وہ اس عورت کے دروازے پر پہنچا تو پہلے عورت اپنے مکان میں داخل ہوگئی۔پھر یہ شخص بھی داخل ہونے لگا اچانک اس نے اللہ کو یاد کیا اور یہ آیت اس کی زبان سے بے ساختہ جاری ہوگئی کہ بے شک جو لوگ خداسے ڈرتے ہیں انہیں شیطان چھوتا ہے وہ چونک جاتے ہیں۔اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اورپھر غش کھا کر وہیں دروازے پر گر پڑا اندر سے عورت آئی یہ دیکھ کر کہ.جوان اس کے دروازے پر بے ہو ش پڑا ہے اس کو اپنے اوپر الزام آنے کا اندیشہ ہوا چنانچہ اس نے اپنی ایک لونڈی کی مدد سے اس جوان مرد کو وہاں سے اٹھا کر اس کے دروازے پر ڈال دیا
ادھر بوڑھا باپ اپنے لڑکے کی آمد کا منتظر تھا جب بہت دیر تک وہ نہ آیا تو اس کی تلاش میں گھر سے نکلا دیکھا کہ دروزے پر بے ہوش پڑا ہے بوڑھے نے اپنے گھر والوں کو بلایا۔ اس کو اٹھا کر اپنے گھر کے اندر لے گئے رات کو جوان ہوش میں آیا باپ نے پوچھا بیٹھا تجھے کیا ہوگیا اس نے جواب دیا خیریت ہے ؟باپ نے واقعے کی حقیقت دریافت کی تو اس نے پورا واقعہ بیان کر دیا پھر باپ نے پوچھاوہ کون سی آیت تھی جو تو نے پڑھی یہ سن کر بیٹے نے آیت پڑھ کر سنائی اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑا اس کو ہلایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ مر چکا ہے چنانچہ رات ہی کو دفن کر دیا گیا جب صبح ہوئی اور حضرت عمر ؓ کو اس کے انتقال کی خبر ملی تو مرحوم کے بوڑھے باپ کے پاس تعزیت کے لئے گئے۔
تعزیت کے بعد شکایت کی کہ مجھے خبر کیوں نہ دی اس نے کہا امیرالمومنین رات ہونے کی وجہ سے اطلاع نہ دے سکے حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا مجھے اس کی قبر پر لے چلو قبر پر جاکر فرمایا اے شخص اس شخص کے لئے جو خدا سے ڈرتا ہے دو باغ ہیں۔اس شخص نے قبر کے اندر سے جواب دیا اے عمر مجھے دو جنتیں دے دی گئیں ہے اسی طرح کا واقعہ ہے کہ ملک شام کے شہر دمشق میں ایک نوجوان خوبصورت لڑکی روزانہ یونیورسٹی جاتی تھی اسی یونیورسٹی میں اس کا والد ایک ڈیپارٹمنٹ کا انچارج تھا ایک دن چھٹی کے فورا بعد بادل گرجنے لگے اور زور دار بارش ہونے لگی ہر کوئی جائے پناہ کی تلاش میں دوڑ رہا تھا سر دی کی شدت بڑھنے لگی آسمان سے گرنے والے اولے لوگوں کے سروں پر برسنے لگے
یہ لڑکی بھی جائے پناہ کی تلاش میں دوڑنے لگی اس کا جسم سردی سے کانپ رہا تھا۔لیکن یہ نہیں جانتی تھیکہ اسے پناہ کہاں ملے گی تو اس نے ایک دروازہ بجایا گھر میں موجود لڑکر باہر نکلااور اسے اندر لے آیا بارش تھمنے تک اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دی۔ دونوں کا آپس میں تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ لڑکا بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے جہاں وہ خود زیر تعلیم ہے اور اس شہر میں اکیلا رہتا ہے ایک کمرہ اور برآمدہ اور باتھ روم اس کا کل گھر تھا نوجوان نے اس کو کمرے میں آرام کرنے کو کہا اور اس کے پاس ہیٹر رکھ دیا اور کہا کہ کمرہ جب گرم ہوجائے تو وہ ہیٹر نکال لے گا تھوڑی دیر لڑکی بستر پر بیٹھی کانپتی رہی اچانک اسے نیند آگئیتو بستر پر گر پڑی نواجوان لڑکا جب ہیٹر لینے کے لئے کمرے میں داخل ہوا
تو اسے بستر پر سوئی ہوئی یہ لڑکی جنت کی حوروں کی سردار لگی وہ ہیٹر لیتے ہی فورا کمرے سے باہر نکل گیا لیکن شیطان جو اسے گمراہ کرنے کے موقع کی تلاش میں تھا اسے وسوسے دینے لگا اس کے ذہن میں لڑکی کی تصویر خوبصورت بنا کر دکھانے لگا تھوڑی دیر میں لڑکی کی آنکھ کھل گئی ۔جب اس نے اپنے آپ کو بستر پر لیٹا ہوا پایا تو بڑبڑا کر اٹھی اور گھبراہٹ کے عالم میں بے تحاشا باہر کے طرف دوڑنے لگی اس نے برآمدے میں اسی نوجوان کو بےہوش پایا وہ انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں گھر کی طرف دوڑنے لگی اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا یہاں تک کہ اپنے گھر پہنچ کر باپ کی گود میں سر رکھ دیا جو کہ پوری رات اسے شہر کے ہر کونے میں تلاش کرتا رہا اس نے باپ کو تمام واقعہ من و عن سنا دیا
اور اسے قسم کھا کر کہا کہ میں نہیں جانتی جس عرصہ میری آنکھ لگی تو میرے ساتھ کیا کیا گیا اس کا باپ انتہائی غصہ کے عالم میں اٹھا اور یونیورسٹی پہنچ گیا اور اس دن غیر حاضر ہونے والے طلباء کے بارے میں پوچھتا رہا ایک لڑکاشہر سے باہر گیا ہے۔ اور ایک بیمار ہے ہسپتال میں داخل ہے باپ ہسپتال میں پہنچ گیااور اس نوجوان کو تلاش کرنے لگا تا کہ اس سے اپنی بیٹی کا انتقام لے سکے ہسپتال میں اس کی تلاش کے بعد جب اس کے کمرے میں پہنچا تو اسے اس حالت میں پایا کہ اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پٹیوں سے بندھی ہوئی تھیں اس نے ڈاکٹر ز سے اس مریض کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جب یہ ہمارے پاس لایا گیا تو اس کے دونوں ہاتھ جل چکے تھے۔باپ نے نوجوان سے کہا تمہیں اللہ کی قسم ہے
مجھے بتاؤ کہ تمہیں کیا ہوا باپ نے اپنا تعارف نہیں کروایا وہ بولاایک لڑکی کل رات بارش سے بچتی ہوئی میرے پاس پناہ لینے کے لئے آئی میں نے اسے اپنے کمرے میں پناہ تو دے دیمگر شیطان مجھے اس کے بارے میں پھسلاتارہا تو میں اس کمرے میں ہیٹر لینے کے بہانے داخل ہوا۔وہ سوئی ہوئی لڑکی مجھے جنت کی حور لگی میں فورا باہر نکل آیاحضرت عمر ؓ کے زمانے میں ایک پرہیز گار نوجوان تھا وہ مسجد میں گوشہ نشین رہتا اور اللہ کی عبادت میں مصروف رہتا تھا حضرت عمر ؓ کو وہ شخص بہت پسند تھا اس جوان کا بوڑھا باپ زندہ تھا اور وہ شخص عشاء کی نماز کے بعد اپنے بوڑھے باپ سے ملنے روزانہ جایا کرتاتھا راستہ میں ایک عورت کا مکان تھا وہ اس نوجوان پر فریفتہ ہوگئیاور بہکانے لگی روزانہ دروازے پر کھڑی رہتی
اور اسے بہکایا کرتی ایک رات اس شخص کا گذر ہوا تو اس عورت نے بہکانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ شخص اس کے پیچھے ہوگیا جب وہ اس عورت کے دروازے پر پہنچا تو پہلے عورت اپنے مکان میں داخل ہوگئی۔پھر یہ شخص بھی داخل ہونے لگا اچانک اس نے اللہ کو یاد کیا اور یہ آیت اس کی زبان سے بے ساختہ جاری ہوگئی کہ بے شک جو لوگ خداسے ڈرتے ہیں انہیں شیطان چھوتا ہے وہ چونک جاتے ہیں۔اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اورپھر غش کھا کر وہیں دروازے پر گر پڑا اندر سے عورت آئی یہ دیکھ کر کہ.جوان اس کے دروازے پر بے ہو ش پڑا ہے اس کو اپنے اوپر الزام آنے کا اندیشہ ہوا چنانچہ اس نے اپنی ایک لونڈی کی مدد سے اس جوان مرد کو وہاں سے اٹھا کر اس کے دروازے پر ڈال دیا ادھر بوڑھا باپ اپنے
لڑکے کی آمد کا منتظر تھا جب بہت دیر تک وہ نہ آیا تو اس کی تلاش میں گھر سے نکلا دیکھا کہ دروزے پر بے ہوش پڑا ہے بوڑھے نے اپنے گھر والوں کو بلایا۔ اس کو اٹھا کر اپنے گھر کے اندر لے گئے رات کو جوان ہوش میں آیا باپ نے پوچھا بیٹھا تجھے کیا ہوگیا اس نے جواب دیا خیریت ہے ؟باپ نے واقعے کی حقیقت دریافت کی تو اس نے پورا واقعہ بیان کر دیا پھر باپ نے پوچھاوہ کون سی آیت تھی جو تو نے پڑھی یہ سن کر بیٹے نے آیت پڑھ کر سنائی اور پھر بے ہوش ہو کر گر پڑا اس کو ہلایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ مر چکا ہے چنانچہ رات ہی کو دفن کر دیا گیا جب صبح ہوئی اور حضرت عمر ؓ کو اس کے انتقال کی خبر ملی تو مرحوم کے بوڑھے باپ کے پاس تعزیت کے لئے گئے۔ تعزیت کے بعد شکایت کی کہ مجھے خبر کیوں
نہ دی اس نے کہا امیرالمومنین رات ہونے کی وجہ سے اطلاع نہ دے سکے حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا مجھے اس کی قبر پر لے چلو قبر پر جاکر فرمایا اے شخص اس شخص کے لئے جو خدا سے ڈرتا ہے دو باغ ہیں۔اس شخص نے قبر کے اندر سے جواب دیا اے عمر مجھے دو جنتیں دے دی گئیں ہے اسی طرح کا واقعہ ہے کہ ملک شام کے شہر دمشق میں ایک نوجوان خوبصورت لڑکی روزانہ یونیورسٹی جاتی تھی اسی یونیورسٹی میں اس کا والد ایک ڈیپارٹمنٹ کا انچارج تھا ایک دن چھٹی کے فورا بعد بادل گرجنے لگے اور زور دار بارش ہونے لگی ہر کوئی جائے پناہ کی تلاش میں دوڑ رہا تھا سر دی کی شدت بڑھنے لگی آسمان سے گرنے والے اولے لوگوں کے سروں پر برسنے لگے یہ لڑکی بھی جائے پناہ کی تلاش میں دوڑنے لگی
اس کا جسم سردی سے کانپ رہا تھا۔لیکن یہ نہیں جانتی تھیکہ اسے پناہ کہاں ملے گی تو اس نے ایک دروازہ بجایا گھر میں موجود لڑکر باہر نکلااور اسے اندر لے آیا بارش تھمنے تک اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دی۔ دونوں کا آپس میں تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ لڑکا بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے جہاں وہ خود زیر تعلیم ہے اور اس شہر میں اکیلا رہتا ہے ایک کمرہ اور برآمدہ اور باتھ روم اس کا کل گھر تھا نوجوان نے اس کو کمرے میں آرام کرنے کو کہا اور اس کے پاس ہیٹر رکھ دیا اور کہا کہ کمرہ جب گرم ہوجائے تو وہ ہیٹر نکال لے گا تھوڑی دیر لڑکی بستر پر بیٹھی کانپتی رہی اچانک اسے نیند آگئیتو بستر پر گر پڑی نواجوان لڑکا جب ہیٹر لینے کے لئے کمرے میں داخل ہوا تو اسے بستر پر سوئی ہوئی یہ لڑکی جنت کی حوروں کی سردار لگی
وہ ہیٹر لیتے ہی فورا کمرے سے باہر نکل گیا لیکن شیطان جو اسے گمراہ کرنے کے موقع کی تلاش میں تھا اسے وسوسے دینے لگا اس کے ذہن میں لڑکی کی تصویر خوبصورت بنا کر دکھانے لگا تھوڑی دیر میں لڑکی کی آنکھ کھل گئی ۔جب اس نے اپنے آپ کو بستر پر لیٹا ہوا پایا تو بڑبڑا کر اٹھی اور گھبراہٹ کے عالم میں بے تحاشا باہر کے طرف دوڑنے لگی اس نے برآمدے میں اسی نوجوان کو بےہوش پایا وہ انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں گھر کی طرف دوڑنے لگی اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا یہاں تک کہ اپنے گھر پہنچ کر باپ کی گود میں سر رکھ دیا جو کہ پوری رات اسے شہر کے ہر کونے میں تلاش کرتا رہا اس نے باپ کو تمام واقعہ من و عن سنا دیا اور اسے قسم کھا کر کہا کہ میں نہیں جانتی جس عرصہ میری آنکھ لگی تو میرے
ساتھ کیا کیا گیا اس کا باپ انتہائی غصہ کے عالم میں اٹھا اور یونیورسٹی پہنچ گیا اور اس دن غیر حاضر ہونے والے طلباء کے بارے میں پوچھتا رہا ایک لڑکاشہر سے باہر گیا ہے۔ اور ایک بیمار ہے ہسپتال میں داخل ہے باپ ہسپتال میں پہنچ گیااور اس نوجوان کو تلاش کرنے لگا تا کہ اس سے اپنی بیٹی کا انتقام لے سکے ہسپتال میں اس کی تلاش کے بعد جب اس کے کمرے میں پہنچا تو اسے اس حالت میں پایا کہ اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں پٹیوں سے بندھی ہوئی تھیں اس نے ڈاکٹر ز سے اس مریض کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جب یہ ہمارے پاس لایا گیا تو اس کے دونوں ہاتھ جل چکے تھے۔باپ نے نوجوان سے کہا تمہیں اللہ کی قسم ہے مجھے بتاؤ کہ تمہیں کیا ہوا باپ نے اپنا تعارف نہیں کروایا وہ بولاایک لڑکی
کل رات بارش سے بچتی ہوئی میرے پاس پناہ لینے کے لئے آئی میں نے اسے اپنے کمرے میں پناہ تو دے دیمگر شیطان مجھے اس کے بارے میں پھسلاتارہا تو میں اس کمرے میں ہیٹر لینے کے بہانے داخل ہوا۔وہ سوئی ہوئی لڑکی مجھے جنت کی حور لگی میں فورا باہر نکل آیا
اپنی رائے کا اظہار کریں