بسم اللہ الرحمن الرحیمالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہالشیخ سالم الطویل حفظہ اللہ نے ایک دفعہ مسجد میں بیٹھے مسلمانوں سے پوچھا، انکی تمام گفتگو کا مفہوم اردو ترجمہ:طیب (اچھا): ایک سوال ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ مشکل نہیں. اللہ کا کیا مطلب ہے؟(مجلس میں بیٹھے لوگ خاموش ہیں)کیا آپ سنجیدہ ہیں؟ اے مسلمانوں آپ کو اللہ کا مطلب نہیں معلوم؟ اللہ کا کیا مطلب ہے، اے مسلمانوں (اگر کسی>خاص وقت میں) ایک کافر رکے اور کہے آپ کس کی عبادت کرتے ہیں؟ آپ کہو گے: میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں.
وہ پوچھے اللہ کا کیا مطلب ہے؟ لفظ اللہ، اسکا کیا مطلب ہے ….؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں مکہ میں پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔ عربیزبان میں لفظ “محمد” کے معنی ہیں ‘جس کی تعریف کی گئی۔ جسکی عظمت شان مقام رفعت درجات ، نعت ، حمد کی کوئی حد نہ ہو اسے محمد کہتے ہیں – یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔
سرکار دوعالم و خاتم النبین کی ذات کی تعریف الفاظ احاطہ نہیں کر سکتے- آپکی شان جیسا کوئی نہیں آیا اور نہ ہی کبھی آئے گا- محمّد ﷺ رسول اللہ تمام نبیوٌں کےسردار ہیں-۔ درود و سلام پیارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جن پر ہم ہماری آل اولاد ہمارے والدین اور سب قربان۔وہ کام ہے نے قرآن میں فرمایا “بے شک اللہ اور ملائکہ (تمام) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں تو اے ایمان والوں تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے رہو۔“ہم سب رحمت کے بے حد محتاج. دنیا میں بھی،مرتے وقت بھی، قبر میں بھی. اور حشر میں بھی. جہاں ہمیں’’رحمت‘‘ مل جاتی ہے، ہم کامیاب ہوجاتے ہیں. اورجہاںرحمت سے محرومی. وہاںعذاب ہی عذاب، زحمت ہی زحمت. قرآن پاک ہمارے لئے. ایک عظیم رحمت کا اعلان فرما رہا ہے.۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ﴿انبیائ:۷۰۱﴾اے نبی محمد﴿ ﷺ﴾ ہم نے آپ کو تمام جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے.
آپ ﷺ کی ذات بھی رحمت ہے اور آپ ﷺ کی صفات بھی رحمت آپ ﷺ کے اقوال بھی رحمت اور آپ ﷺ کے افعال بھی رحمت. آپ ﷺ موجود تھے تب بھی رحمت اور اب پردہ فرما گئے تب بھی رحمت.’’رحمت‘‘ حضرت آقا مدنی ﷺ کی لازمی صفت. اور آپ ﷺ کی پہچان ہے. اورآپ ﷺ کا ہر عمل رحمت ہے. حضرت آقا محمد مدنی ﷺ صرف’’رحمت‘‘ ہی نہیں. بلکہ ’’رحمۃ للعالمین‘‘ ہیں. یعنی تمام جہان والوں کے لئے رحمت. وہ انسان ہوں یاجنات. حیوانات ہوں یا نباتات. سمندر ہوں یا جمادات. وہ زمین ہوں یا آسمان. آپ ﷺ ان سب کے لئے’’رحمت‘‘ ہیں. اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت.۔ آپ کا نام بھی’’رحمت‘‘ اور آپ کا دین بھی ’’رحمت‘‘. جو آپ ﷺ سے جتنا قریب وہ اسی قدر زیادہ رحمت کا مستحق. اور جو آپ سے جتنا دور اور محروم وہ رحمت سے اسی قدر محروم. ارے جس کو رحمت پانی ہو وہ حضرت آقا مدنی ﷺ کی غلامی میں آجائے۔حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لئے اپنے کئی اسماء گرامی بیان کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور مقفی (بعد میں آنے والا) اور حاشر (جس کی پیروی میں روزِ حشر سب جمع کئے جائیں گے) ہوں اور نبی التوبہ، نبی الرحمہ ہوں۔ مسلم شریفہے یہ جاننے کے لیے کہ اللہکا کیا مطلب۔ ) قرآن کی کا متن یعنی اس کے بعینہ وہ الفاظ جو اللہ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطہ سے یا وحی کے کسی اور طریق سے نبی آخرالزماں صلى الله عليه وسلم پر نازل کئے آپ صلى الله عليه وسلم پر جب وحی نازل ہوتی، تو آپ فوراً کاتبین وحی میں سے کسی سے کتابت کروالے لیتے، پھر صحابہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی زبانِ اقدس سے بھی اُسے سنتے، اور جو تحریر کیا ہوا ہوتا، اُسے بھی محفوظ کرلیتے، اس طرح ۲۳/سال تک قرآن، نزول کے وقت ہی لکھا جاتا رہا،۔ صحابہ نے اسے حفظ بھی یاد کیا، کیوں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس کے حفظ کی بڑی فضیلتیں بیان کی ۔
ایک روایت کے مطابق صحابہ میں سب سے پہلے حفظِ قرآن مکمل کرنے والے حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔دورِ نبوی صلى الله عليه وسلم کے بعد دورِ ابی بکر میںحضرت عمر رضی اللہ عنہ، اور دیگر صحابہ کے کے مشورے سے اس کی تدوین عمل میں آئی یعنی اس کو یکجا کر لیا گیا اور دورِ عثمانی میں اس کی تنسیخ‘ عمل میں آئی، یعنی اس کے مختلف نسخے بناکر کوفہ، بصرہ، شام، مکہ وغیرہ جہاں جہاں مسلمان آباد تھے بھیج دیے گئے، یہ تو تحریری صورت میں حفاظت کا انتظام ہوا، ا س کے علاوہ اس کو لفظ بلفظ یاد کرنے کا التزام کیا گیا، وہ الگ۔ اس طرح قرآن سینہ و سفینہ دونوں میں مکمل لفظاً محفوظ ہوگیا، اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلٍ آج بھی جاری ہے، قیامت تک جاری رہے گا، انشاء اللہ، اللہم اجعل القرآن ربیع قلوبنا و جلاء اعیننا.۔ (۲) جہاں اللہ رب العزت نے اس کے متن کی حفاظت کی، وہیں اس کے معنی و مفہوم اور مراد کی حفاظت کا بھی انتظام کیا، اس لیے کہ صرف الفاظ کا محفوظ ہونا کافی نہیں تھا،
کیوں کہ مراد اور معنی اگر محفوظ نہ ہو،تو ا س کی تحریف یقینی ہوجاتی ہے، کتب سابقہ کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا، کیوں کہ اس کے الفاظ اگرچہ کچھ نہ کچھ محفوظ رہے، مگر اس کے معانی و مفہوم تو بالکل محفوظ نہ رہے، اس لیے کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے اقوال و افعال و اعمال کو محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہ کیا، جس کے نتیجہ میں الفاظ محفوظہ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکے، مثلاً عیسائی مذہب ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دو اصولوں کی تعلیم دی گئی، اور ہم اس کے علمبردار ہیں: نمبر ایک عدل و انصاف۔ نمبردو محبت و الفت۔ مگر اگر آپ، ان سے دریافت کریں کہ عدل و انصاف کس کو کہتے ہیں، تو وہ اس کا مفہوم نہیں بیان کرسکتے۔ یہی حال محبت کا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عدل اور محبت کی پرواہ کیے بغیر لاکھوں نہیں، ک روڑوں انسانوں کو عیسائیت کے فروغ کی خاطر قتل کر دیا گیا، اور یہ سلسلہ ابھی تک تھمانہیں۔ اسی طرح یہودیت کی اصل بنیاد اس اصول پر ہے،کہ تم اپنے پڑوسی کے لیے وہی پسند کرو،جو اپنے لیے پسند کرو۔
لیکن اگر آپ یہود کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا،کہ انہوں نے اپنے پڑوسیوں کو جتنا ستایا، اتنا دنیا میں کسی نے اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستایا ہوگا، اور اب بھی اس کا سلسلہ جاری ہے، جو اسرائیل کی جارحیت سے عیاں ہے، مگر اسلام، الحمد للہ سنت نبوی کے پورے اہتمام کے ساتھ محفوظ رہنے کی وجہ سے،۔ قرآن کی تعلیمات پر مکمل طور پر محفوظ چلا آرہا ہے۔ اس طرح اللہ نے سنتِ رسول جس کو احادیث رسول صلى الله عليه وسلم بھی کہا جاتا ہے، کے ذریعہ معانی و مفاہیم اور مراد الٰہی کو محفوظ رکھنے کا انتظام کیا۔ اس لیے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرآن کی جو تفسیر کی، جسے ”تفسیر بالمأثور“کہا جاتا ہے، جس پر امام سیوطی، امام ابن کثیروغیرہ، بے شمار علماء نے تفسیر یں لکھیں، اور ہر آیت کی تفسیر، حدیث رسول سے کرکے دکھائی، وہ درحقیت اللہ ہی کی جانب سے ہے، کیوں کہ قرآن نے اعلان کیا ہے ”ان علینا بیانہ“ ( سورة القیٰمة: پ۲۹/۱۹)یعنی اس قرآن کی تفسیر بھی ہم نے اپنے ذمہ لے لی ہے۔ا یک جگہ پر”جمعہ وقرآنہ“ ہے، ایک جگہ ارشاد ہے ”وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحی“ آپ صلى الله عليه وسلم کوئی بات اپنے جی سے نہیں کرتے، بلکہ وحی خدا وندی ہی ہوتی ہے :۔
اپنی رائے کا اظہار کریں