ایک کافر جوان اپنے چچا کی بیٹی پر عاشق ہو گیا اس کا چچا حبشہ کا بادشاہ تھا جوان اپنے چچا کے پاس گیا اور کہا: چچا جان مجھے آپکی بیٹی پسند ہے میں اسکی خواستگاری کے لئے آیا ہوں. بادشاہ نے کہا:کوئی بات نہیں لیکن اس کا مھر بہت بھاری ہے. جوان نے کہا جو کچھ بھی ہو مجھے قبول ہے. بادشاہ نے
کہا:مدینہ شھر میں میرا ایک دشمن رہتا ہے اس کا سر میرے پاس لائو اس وقت میری بیٹی تمہاری ہو گی. جوان نے کہا : چچا جان آپکے دشمن کا نام کیا ہے ؟ کہا: لوگ اسے علی ابن ابی طالب کے نام سے جانتے ہیں جوان نے فورا گھوڑے کے اوپر زین رکھی اور تیر، تلوا،ر نیزہ اور کمان کے ساتھ راہی مدینہ ہوا. جب شھر کے نزدیک ایک تپہ کے اوپر پہنچا تو دیکھا کہ ایک عربی جوان نخلستان میں باغبانی و بیلچہ چلا رہا ہے. جوان کے نزدیک گیا اور کہا: اے مرد عرب کیا تم علی کو جانتے ہو؟ جوان عرب نے کہا:علی سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا: اپنے چچا جو کہ حبشہ کا بادشاہ ہے اس کے لئے علی کا سر لینے آیا ہوں
کیونکہ اس نے اپنی بیٹی کا حق مھر علی کا سر قرار دیا ہے. جوان عرب نے کہا: تم علی کا مقابلہ نہیں کرسکتے. اس نے کہا:کیا علی کو جانتے ہو؟ جوان عرب:جی ہر روز اس کے ساتھ ہوتا ہوں اور ہر روز اس کو دیکھتا ہوں. اس نے کہا:علی کیسی ھیبت رکھتا ہے کہ میں اس کا سر تن سے جدا نہیں کر سکتا؟ جوان عرب:میرے قد جتنا اس کا قد ہے اور ھیکل (جسامت) بھی میرے اندازہ کے مطابق ہے. اس نے کہا :اگر تہماری طرح ہے تو پھر مسئلہ کوئی نئیں. مرد عرب نے کہا: پہلے تم مجھے شکست دو پھر میں تم کو علی کا پتہ بتاؤں گا. کہا:شمشیر و تیر و کمان و سنان. کہا: آمادہ ہو جاو. جوان اونچی آواز میں ہنسا اور
کہا کیا تم اس بیلچے سے مجھے شکست دو گے؟ پس تیار ہو جاو شمشیر کو نیام سے نکالا .پھر پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ مرد عرب نے جواب دیا عبد اللہ. تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا فتاح اور اسی لمحے تلوار کے ساتھ عبد اللہ پر حملہ کر دیا. عبد اللہ نے چشم زدن میں اس کو کندھے اور بازو سے پکڑا اور آسمان کی طرف بلند کیا اور زمین پر دے مارا اور اس کا خنجر اپنے ہاتھ میں لیا اور بلند کیا. اچانک دیکھا کہ جوان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو رہے ہیں. مرد عرب نے کہا:کیوں رو رہے ہو؟ جوان نے کہا:میں اپنے چچا کی بیٹی کا عاشق تھا آیا تھا تاکہ علی کا سر اپنے چچا کے لئے لے جاو تاکہ وہ اپنی دختر
مجھے دے لیکن لگتا ہے ابھی آپکے ہاتھوں سے مارا جاؤں گا. مرد عرب نے جوان کو بلند کیا اور کہا:آجاو اس تلوار سے میرا سر اپنے چچا کے لئے لے جائو. اس نے پوچھا تم کون ہو؟ کہا : میں اسد اللہ الغالب ، على ابن ابی طالب ہوں. اگر میرے سر کی وجہ سے خدا کے بندوں میں سے کسی کا دل شاد ہوتا ہے تو میں حاضر ہوں کہ میرا سر تمہارے چچا کی بیٹی کا حق مھر ہو جائے.جوان زور زور سے رونے لگا اور اْپؓ کے قدموں میں گر پڑا اور کہا: میں چاہتا ہوں کہ آج سے آپ کا غلام بن جائوں. اسی طرح فتاح بنام قنبر علی ابن ابی طالب کا غلام ہو گیا.
اپنی رائے کا اظہار کریں