بادشاہ کا دل اپنی ہی بیٹی پر آگیا

بادشاہ

ایک بادشاہ کی بیوی بہت ہی خوبصورت تھی۔ اور بادشاہ اس سے بہت زیادہ پیار کرتا تھا۔ جب ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ تو بیٹی کی پیدائش کے بعد بادشاہ کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ بیوی کے انتقال کی خبر بادشاہ پر بجلی بن کر گری۔ اور پھر وہ ہر وقت افسر دو ر ہنے لگا۔ بیوی کی وفات کے بعد وہ زیادہ تر شراب کے

نشے میں ڈوبار ہوتا۔ اور باقی وقت خوبصورت کنیزوں کی صحبت میں گزار دیتا۔ وہ شراب کے نشے میں اتنا غرق ہو گیا کہ اسے اپنی بیٹی کی خبر تک نہ رہی۔ جو کہ اب تک محل کے ملازموں کے ہاتھوں پرورش پارہی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور بادشاہ کی بیٹی 16 سال کی ایک خوبصورت دوشیزہ بن گئی۔ بادشاہ کی بیٹی بالکل اپنی ماں جیسی تھی۔ ایک دن بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ چونک گیا۔ اور کافی دیر تک اپنی بیٹی کو دیکھتا رہا جو جوان ہو کر بالکل اپنی ماں کی ہمشکل نکلی تھی۔ بادشاہ چونکہ شراب کے نشے میں ڈوب کر اچھے برے کی پہچان بھول چکا تھا۔ اس لیے اس کا دل اپنی ہی بیٹی پر آگیا۔

 اس نے سوچا اب جو بھی ہو اس سے شادی ضرور کروں گا لیکن کیسے یہ بات اس کو پریشان کر رہی تھی۔ وہ ایسا کام کر کے اپنی رعایا کو اپنے خلاف نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اور یہ بھی جانتا تھا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ لیکن وہ عورتوں کے ساتھ گناہ کرنے کی عادت کے ہاتھوں مجبور تھا۔ آخر کار اس نے علماء کرام سے اپنے حق میںnفتوی لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے سوچا کہ وہ کسی عالم کو سونے چاندی کا لالچ دے کر اپنے حق میں فیصلہ کر والے گا۔ اور پھر اپنی بیٹی سے شادی رچالے گا۔ اور اس طرح گناہ بھی فتوی دینے والے کے سر چڑھ جائے گا۔ بادشاہ نے ایک عالم دین کو بلوا کر کہا کہ۔ میں اپنی

 بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیا یہ جائز ہے۔nفتوی لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے سوچا کہ وہ کسی عالم کو سونے چاندی کا لالچ دے کر اپنے حق میں فیصلہ کر والے گا۔ اور پھر اپنی بیٹی سے شادی رچالے گا۔ اور اس طرح گناہ بھی فتوی دینے والے کے سر چڑھ جائے گا۔ بادشاہ نے ایک عالم دین کو بلوا کر کہا کہ۔ میں اپنیnبیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیا یہ جائز ہے۔ عالم نے کہا نہیں ہر گز نہیں یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ بادشاہ نے اس کو ہر طرح کا لالچ دیا۔ لیکن عالم دین نے بادشاہ کے حق میں فتوی دینے سے انکار کر دیا۔ بادشاہ نے غصے میں آکر اسے قتل کروا دیا۔ پھر دوسرے عالم سے کہا کہ اسکے حق میں فیصلہ دے۔

لیکن اس نے بھی ۔ انکار کر دیا۔ بادشاہ نے اسے بھی قتل کروا دیا اور اسی طرح پھر تیسرے عالم دین کو بھی قتل کروا دیا۔۔ آخر کار بادشاہ نے چوتھے عالم دین کو بلوا کر فتوی مانگا اور پوچھنے لگا کہ کیا میری بیٹی مجھ پر حلال ہو سکتی ہے میری بیوی بن سکتی ہے۔ عالم دین نے کہا ہاں بن سکتی ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بادشاہ یہ سن کر بہت حیران ہوا اور پوچھا کہ وہ کیسے۔ عالم دین نے بادشاہ کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا ارے بادشاہ اللہ تعالی کے نبی کا فرمان ہے کہ جب تم حیاء نہ کرو تو پھر چاہے جو مرضی کرو۔ جب تم نے بے حیا بن کر سوچ ہی لیا ہے۔ تو تم پر سب کچھ جائز ہے کیونکہ تم بے حیاء بن

چکے ہو۔ اتنا سننا تھا کہ بادشاہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اور وہ رونے لگ گیا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا۔ اس دن کے بعد بادشاہ نے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لی۔ سچی بات یہ ہے کہ اللہ کے ولی حق بات کہنے سے نہیں ڈرتے چاہے ان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

اپنی رائے کا اظہار کریں