کہتے ہیں زندگی امتحان ہے اور اس امتحان کا سب سے مشکل اور لازمی سوال بیوی ہے۔ بیویاں دو قسم کی ہوتی ہیں ۔ایک وہ جو بہت خوبصورت، نرم مزاج، خوش گفتار، معاملہ فہم، صبر و شکراور پیار کرنیوالیاں اور دوسری حقیقی ۔ میاں اور بیوی پچیس سال تک ہنسی خوشی بےغم خوشحال زندگی گذارتے ہیں پھ
ر ایک دن ان کی شادی ہو جاتی ہے ۔ خوش قسمت ہے وہ شخص جو محنت سے کروڑ پتی ہو اور ذہین ہے وہ خاتون جو ایسا شوہرڈھونڈ لے۔ ذہین بیوی بڑی آسانی سے شوہر کو لکھ پتی بنا دیتی ہے ۔ بشرطیکہ وہ کروڑ پتی ہو. کسی دانا کا قول ہے اور مجھے یہ بتاتے ہوئے ہر گز کوئی عار نہیں کہ وہ دانا میں خود ہی ہوں۔ کہ ننانوے فیصد شوہر بیویوں سے ڈرتے ہیں اور باقی ایک فیصد جھوٹ بولتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق بیویاں شوہروں سے زیادہ عرصہ تک زندہ
رہتی ہیں ۔ یقیناً اس کی وجہ یہی رہی ہوگی کہ ا ن کی کوئی بیوی نہیں ہوتی اور موٹی بیویوں کی عمریں خاص طور پر اپنے شوہروں سے لمبی ہوتی ہیں، اور وہ بھی اگر وہ ان کو موٹی کہہ بیٹھیں ۔ آپ نے کبھی سوچا کہ بچوں کی بولی ہمیشہ مادری زبان کیوں کہلاتی ہے حالانکہ ولدیت باپ کے نام سے چل رہی ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے بھئی جو گھر میں بولے گا اس کی زبان ہی بچے سیکھیں گے نا۔ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے اور بیوی کی زبان۔ سنتے ہیں
کہ ایک آدمی پر بیوی سے ہفتہ بھر بات نہ کرنے کا الزام تھا ۔جج صاحب نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ نے ایک ماہ سے اپنی بیوی سے بات نہیں کی۔ وہ دراصل میں قطع کلامی نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ ملزم شوہر نے جواب دیا ۔کہتے ہیں میاں اور بیوی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں ۔ ہم نے بہت سوچا دو پہیوں والی گاڑی تو صرف گدھا گاڑی ہی ہوتی ہے ۔ پر پھر بھی محاورہ میں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے ۔ بھلا کوئی شخص ایک وقت میں گدھا اور پہیہ کیسے ہو سکتا
ہے ۔۔ میری بیوی کی یاداشت بہت کمال کی ہے ۔وہ مجھے سو چیزیں لانے کو کہے تو میں بعض اوقات صرف ننانوے لے آتا ہوں اور ایک بھول جاتا ہوں ۔ مگر وہ نہیں بھولتی۔ نہ صرف یہ کہ وہ فوراً جان لیتی ہے کہ میں کونسی چیز نہیں لایا ۔بلکہ اس کو تو یہ تک یاد ہوتا ہے کہ وہی چیز تو سب سے اہم اور ناگزیر تھی باقی ننانوے تو احتیاطاً ساتھ منگائی گئی تھیں ۔ اسی طرح اس کو یہ بھی یاد رہتا ہے کہ انیس سال سات ماہ اور بیس دن پہلے میں نے اس کی خالہ رقیہ کے گھر
کس وجہ سے نہیں گیا تھا ۔ اور وہ اسی وجہ سے بیسیوں بار میری خالاؤں کے گھر نہیں جاچکی۔ ہاں مگر صرف اس کو یہ بات کبھی کبھی بھول جاتی ہے کہ ابھی صبح اس کو میں نے کچھ پیسے دیے تھے۔میری بیگم کھانا ہمیشہ مجھ سے پوچھ کر پکاتی ہے۔وہ قریب دس منٹ میری رائے لیتی رہتی ہے کہ آج میرا کیا کیا کھانے کو من ہے۔ پھر وہ بڑے اہتمام کے ساتھ وہ چیز پکاتی ہے جو میں نے نہیں کہی ہوتی۔ اس کو خود مغز کھانا پسند ہے ۔ میری بیگم کے خیال میں دنیا
کا سب سے نکما شوہر میں ہوں اور دنیا کا سب سے اچھا شوہر اس کا بھائی ہے ۔حالانکہ اس کے بھائی کی بیوی کا بھی یہی خیالات ہیں اپنے شوہر اور اپنے بھائی کے متعلق وعلی ھذالقیاس ۔ یاد رہے کہ صرف یہ واحد بات ہے جس پر میری بیگم اور اس کی ساس کا اتفاق ہے کہ دونوں کے شوہر نکھٹو اور غیر چالاک ہیں۔بری بیویاں ہر تیسرے دن اپنے شوہروں سے ناراض ہوتی ہیں۔ جبکہ اچھی بیویاں ہفتے میں صرف دو بار۔ بیوی کو منانے کا سب سے آسان طریقہ
ہے کہ اس کو تین بار خریداری کے لئے لے کر جایا جائے۔ پہلی بار پسند کروانے کے لئے، دوسری بار خریدنے اور تیسری بار تبدیل کروانے کے لئے ۔ بیگم صاحبہ ہر خاندانی اور غیر خاندانی تقریب پر نئے کپڑے اور جوتے خریدتی ہیں۔ کہ پہلے والے سب نے دیکھ رکھے ہوتے ہیں ۔ ہم بارہا عرض کر چکے ہیں کہ سب نے تو آپ کو اور ہمیں بھی دیکھ رکھا ہے ۔ ان کو ہماری اس بات سے آدھا اتفاق ہے۔ اس لئے وہ ہمیں کہتی ہیں کہ کیا کرنے ہیں آپ نے نئے کپڑے
ابھی پچھلی عید پر تو سلوائے تھے۔عید بقر عید پر گھر میں مہمان آتے ہیں جو سب کے لیے عیدیاں دیکرجاتے ہیں۔ بیگم صاحبہ پھر ہم سے رقم کا تقاضہ کرتی ہیں جوابی عیدیوں کے لیے۔ اگر ہم کہیں کہ بھئی وہ پیسے کہاں گئے جو وہ لوگ دے کر گئے تھے تو ان کا اعلان ہوتا ہے کہ وہ تو میں نے”سنبھال” لیے ہیں۔ اور ہمارا تجربہ ہے کہ بیگم اور سرکار نے ایک بار پیسے ل ے لیے تو ان سے واپس پھر کوئی مائی کا لعل نہیں لے سکتا ۔ عورت کو مرد کی بائیں پسلی سے
پیدا کیا گیا ہے ۔اور یہی وہ مقام ہے جہاں پر مرد کا دل ہوتا ہے شاید اسی لئے اس میں عورتوں کے لئے جگہ ہی جگہ ہوتی ہے ۔ اور اسی بنا پر مرد بااہتمام وبصد شوق اپنی بیوی کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے ۔ مگر بیوی بہت جلد وہاں سے اتر جاتی ہے اپنی زبان کی سیڑھی کے ذریعہ سے ۔استاد صاحب کہا کرتے تھے جو عورت دو بچوں کی ماں بن جائے وہ پھر شوہر کو تگنی کا ناچ نچا دیتی ہے ۔ ہم نے پوچھا استاد جی اس کا کوئی حل بھی تو ہوگا ۔فرمانے لگے بیٹا بس
حل یہی ہے کہ تگنی کا ناچ پہلے سے سیکھ رکھو عین وقت پر دقت نہ ہو گی۔ استاد جی بہت یاد آتے ہیں ۔کبھی ملے تو پوچھوں گا جس کے چار ہوں اس کے لئے کیا حکم ہے۔ کیا اچھا ہو کہ ہمار اعمال ایسے کہ ہم ان لوگوں میں سے ہو جائیں جن کے لیے اللہ فرماتے ہیں وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
اپنی رائے کا اظہار کریں