استغفار کرنے کا طریقہ

استغفار

نیکیوں کے طریقے اور انداز بہت زیادہ ہیں چنانچہ ان میں سے ایک استغفار بھی ہے جو کہ آدم، حوا، نوح، ابراہیم، موسی، داود علیہم السلام اور سیدنا محمد ﷺ سمیت تمام انبیائے کرام کی عادت مبارکہ ہے، نبی ﷺ سے استغفار کیلیے متعدد الفاظ ثابت ہیں، استغفار نیک لوگوں کی امتیازی صفت ہے، بخشش اور توبہ ایسی

نیکیوں میں شامل ہے جن کی قبولیت کا وعدہ اللہ تعالی نے کیا ہوا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ: استغفار سے ہمہ قسم کی رحمت و نعمت کا حصول، گناہوں کی بخشش، جنت کا داخلہ، بارشوں کا نزول، عذاب سے تحفظ، حاجت روائی و مشکل کشائی اور رزق میں فراوانی حاصل ہوتی ہے، مسلمانوں کیلیے بخشش مانگنے کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے، فرشتے بھی مسلمانوں کیلیے بخشش مانگتے ہیں۔ صالح، نوح، ہود اور دیگر انبیائے کرام نے اپنی اقوام کو استغفار کی

ترغیب دلائی، آخر میں انہوں نے کہا کہ: دنیا کی زندگی کو غنیمت جانیں یہاں سے جانے والا واپس آ کر نیکیاں کمانے کی سر توڑ کوشش کریگا لیکن اسے موقع نہیں دیا جائے، اس لیے کسی بھی چھوٹی نیکی یا بدی کو کبھی بھی معمولی مت سمجھنا۔ پہلا خطبہ:تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہی رحمن و رحیم اور علیم و حکیم ہے، عظیم فضل والا ہے، میں اسی کی حمد و ثنا بجا لاتا ہوں اسی کی طرف توبہ کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا

ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، معزز عرش اسی کا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، آپ بہت ہی اعلی اخلاق کے مالک تھے، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر، انکی آل اور صراطِ مستقیم کی دعوت دینے والے ہدایت یافتہ صحابہ کرام پر سلامتی ، برکتیں ، اور رحمتیں نازل فرما۔حمد و صلاۃ کے بعد:رضائے الہی کے مطابق عمل کرتے

ہوئے اللہ سے ڈرو، حرام کاموں کو چھوڑ دو، تا کہ تم رضائے الہی اور اسکی جنت پا سکو، نیز غضب و عذاب الہی سے نجات حاصل کر سکو۔مسلمانو!اللہ تعالی نے فضل و کرم اور جود و سخا کرتے ہوئے ہمارے لیے نیکی اور عبادات کے بہت سے دروازے کھول رکھے ہیں، صرف اس لیے کہ مسلمان کسی بھی دروازے سے داخل ہو کر اطاعت گزار بنے ؛ اس کے بدلے میں اللہ تعالی دنیا و آخرت سنوار کر درجات بلند فرما دے، چنانچہ اللہ تعالی اسے دنیا میں خوشحال

زندگی بخشے گا، اور مرنے کے بعد دائمی نعمتیں اور رضائے الہی حاصل کریگا، فرمانِ باری تعالی ہے:{ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ}نیکیوں کی طرف بڑھ چڑھ کر حصہ لو، تم جہاں بھی ہو گے اللہ تعالی تم سب کو اکٹھا کر لے گا، بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ [البقرة : 148]نیز اللہ تعالی نے تمام لوگوں کیلئے نمونہ و قدوہ بننے والے انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام کے بارے میں فرمایا:{إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ

وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ}بیشک وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے، اور وہ ہمیں امید اور خوف کیساتھ پکارتے اور ہم سے خوب ڈرتے تھے۔ [الأنبياء : 90]نیز نبی ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: (کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازوں کے بارے میں نہ بتلاؤں؟: روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ایسے بھجا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو ختم کر دیتا ہے، اور قیام اللیل ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: {تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ

رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ [16] فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں ۔ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں [16] کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ انکی آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کچھ چیزیں ان کے لئے چھپا رکھی گئی ہیں یہ ان کاموں کا بدلہ ہوگا جو وہ کیا کرتے تھے۔ [السجدة :16 – 17] پھر آپ نے فرمایا: (کیا میں

تمہیں اصل ہدف ، ہدف کا ستون اور اس کی چوٹی کے بارے میں نہ بتلاؤں؟) میں نے کہا : “کیوں نہیں؟” تو آپ نے فرمایا: (اصل ہدف : اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے، اور اس کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے) ترمذی نے اسے روایت کیا اور صحیح قرار دیا۔نیکیوں میں اضافے اور گناہوں کو مٹانے کا ایک طریقہ استغفار ہے، چنانچہ بخشش کا مطالبہ انبیاء و المرسلین علیہم الصلاۃ و السلام کی عادت مبارکہ ہے ، اللہ تعالی نے بشریت کے والدین – ان دونوں پر اللہ کی

طرف سے سلامتی، رحمتیں، اور برکتیں نازل ہوں-کے بارے میں فرمایا:{قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}[حوا اور آدم ] دونوں نے کہا: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ [الأعراف : 23]اور نو ح علیہ السلام کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:{رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ }میرے پروردگار!

مجھے ، میرے والدین، اور میرے گھر میں داخل ہونے والے مؤمن مرد و خواتین تمام کو بخش دے۔[نوح : 28]اور ابراہیم علیہ السلام اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہوئے فرماتے ہیں:{رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ}ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین، اور تمام مؤمنین کو حساب کے دن بخش دینا۔[ابراہیم : 41]اور موسی علیہ السلام کا مقولہ نقل کرتے ہوئے فرمایا:{رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ}میرے پروردگار! مجھے

اور میرے بھائی کو بخش دے، اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ [الأعراف : 151]ایسے ہی فرمایا:{وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ}داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، تو پھر اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا ۔[ص : 24]اور نبی ﷺ کو حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:{فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ

وَالْمُؤْمِنَاتِ}یہ بات جان لیں! اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، اور اپنے تسامحات سمیت سب مؤمن مرد و خواتین کیلئے اللہ تعالی سے بخشش مانگیں۔[محمد : 19]اور آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی گزشتہ و پیوستہ تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں –چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :“ہم رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی مجلس میں سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کے یہ الفاظ شمار کر لیتے

تھے: (رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ) [میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے]ابو داود، ترمذی اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: “رسول اللہ ﷺ وفات سے پہلے اکثر اوقات یہ فرمایا کرتے تھے: (سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ) [اللہ اپنی حمد کیساتھ پاک ہے، میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف رجوع

کرتا ہوں۔]بخاری و مسلمابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ : “میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو (أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ)[ میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں]کہتے ہوئے نہیں سنا” نسائیآپ ﷺ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد تین بار کہا کرتے تھے: ” أَسْتَغْفِرُ اللهَ ” [میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں]مسلم نے اسے ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس کے بعد نماز کے بعد والے اذکار فرماتے ۔

اپنی رائے کا اظہار کریں