حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی روح لینے کیلئے ملک الموت آئے۔ انہوں نے فرمایا ’’کیا آپ نے کسی ایسے دوست کو دیکھا جو اپنے خلیل کی روح کو قبض کر رہا ہو‘‘۔ انہوں نے کہا اچھا اللہ تعالیٰ سے پوچھتا ہوں‘ ملک الموت نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا اللہ نے فرمایا کہ جاؤ میرے حبیبؑ کو پیغام دے
دو ’’کیا تم نے کسی دوست کو دیکھا کہ اپنے دوست کی ملاقات سے انکار کر رہا ہو تو جیسے ہی ان کو پتہ چلا کہ موت اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا طریقہ ہے‘ کہنے لگے ملک الموت! ’عجل عجل‘ جلدی کر جلدی کر روح قبض کر‘ مجھے اپنے مالک سے واصل کردے۔ یہ تھی تمنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہ اب تو جلد سے جلد اپنے پیارے اللہ کے حضور جا پہنچیں اور ملاقات حبیب سے لطف اندوز ہوں۔ اسی لئے حدیث قدسی میں فرمایا ’’ملاقات کر کہ میرے نیک
لوگوں کا شوق میری ملاقات کیلئے بڑھ گیا اور میں ان کی ملاقات کیلئے ان سے بھی زیادہ مشتاق ہوں‘‘ جب روح نکلتی ہے تو انسان کا منہ کھل جاتا ہے ہونٹ کسی بھی قیمت پر آپس میں چپکے ہوئے نہیں رہ سکتے … روح پیر کو کھںچتی ہوئی اوپر کی طرف آتی ہے جب پھیپڑوں اور دل تک روح کھینچ لی جاتی ہے تو انسان سانس ایک ہی طرف یعنی باہر ہی چلنے لگتی ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب چند سیکنڈ میں انسان شیطان اور فرشتوں کو دنیا میں اپنے سامنے دیکھتا ہے
…ایک طرف شیطان اس کے کان کے ذریعہ کچھ مشورے تجویز کرتا ہے تو دوسری طرف اس کی زبان اس کے عمل کے مطابق کچھ لفظ ادا کرنا چاہتی ہے اگر انسان نیک ہوتا ہے تو اس کا دماغ اس کی زبان کو کلمہ اے شہادت کی ہدایت دیتا ہے اور اگر انسان کافر مشرک بددين یا دنیا پرست ہوتا ہے تو اس کا۔ پرست ہوتا ہے تو اس کا دماغ كنفيوژن اور ایک عجیب ہیبت کا شکار ہو کر شیطان کے مشورے کی پیروی ہی کرتا ہے اور انتہائی مشکل سے کچھ لفظ زبان
سے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ….یہ سب اتنی تیزی سے ہوتا ہے کی دماغ کو دنیا کی فضول باتوں کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا …. انسان کی روح نکلتے ہوئے ایک زبردست تکلیف ذہن محسوس کرتا ہے لیکن تڑپ نہیں پاتا کیونکہ دماغ کو چھوڑ کر باقی جسم کی روح اس کے حلق میں اکٹھی ہو جاتی ہے اور جسم ایک گوشت کے بے جان لوتھڑے کی طرح پڑا ہوا ہوتا ہے جس میں کوئی حرکت کی گنجائش باقی نہیں رہتی آخر میں دماغ کی روح بھی کھینچ لی
جاتی ہے آنکھیں روح کو لے جاتے ہوئے دیکھتی ہیں اس لیے آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑھ جاتی ہیں یا جس سمت فرشتہ روح قبض کرکے جاتا ہے اس طرف ہو جاتی ہیں۔۔ اس کے بعد انسان کی زندگی کا وہ سفر شروع ہوتا ہے جس میں روح تکلیفوں کے تہہ خانوں سے لے کر آرام کے محلات کی آہٹ محسوس کرنے لگتی ہے جیسا کہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے … جو دنیا سے گیا وہ واپس کبھی نہیں لوٹا صرف اس لئے کیونکہ اس کی روح عالم اے برذكھ میں اس گھڑی کا
انتظار کر رہی ہوتی ہے جس میں اسے اس کا ٹھکانا دے دیا جائے گا … اس دنیا میں محسوس ہونے والی طویل مدت ان روحوں کے لیے چند سےكےڈو سے زیادہ نہیں ہوگی یہاں تک کہ اگر کوئی آج سے کروڑوں سال پہلے ہی کیوں نہ مر چکا ہو …. مومن کی روح اس طرح کھینچ لی جاتی ہے جیسے آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے … گناہ گار کی روح خار دار درخت پر پڑے سوتی کپڑے کی طرح کھینچی جاتی ہے ….اللہ تعالی ہم سب کو موت کے وقت کلمہ نصیب
فرماكر آسانی کے سات روح قبض فرما اور نبی پاک ﷺ کا دیدار نصیب فرما
اپنی رائے کا اظہار کریں