اپنے اوپر سے نظربد کے اثرات اتارنے کے لیے سورۂ فاتحہ ، آیۃ الکرسی ،معوذتین اور مندرجہ ذیل دعاپڑھیں: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ.”(اسوۂ رسول اکرم ﷺ) نیز نظر بد کے دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس آدمی کے بارے میں معلوم ہوکہ اس کی نظر لگی تو اُس
کو وضو کرایا جائے اور اُس کے ”غسالہ “ ( یعنی اس کے مستعمل پانی) کو کسی برتن میں جمع کرلیا جائے اور پھر جسے نظر لگی ہے اُس پانی سے اُس کو غسل کرا یا جائے۔جیساکہ احادیثِ مبارکہ میں اس کا طریقہ مذکور ہے،ذیل میں مشکاۃ شریف سے وہ روایت اور اس کی تشریح نقل کی جاتی ہے: ”اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے ۔” کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے
کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے ،اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہو جاتا تھا ۔چناں چہ رسول کریم ﷺ نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کو منظور کر لو۔ نیز دوسری روایت میں ہے: حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سہل ابن
حنیف کہتے ہیں کہ (ایک دن ) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (میرے والد ) سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہاتے ہوئے دیکھا ۔ تو کہنے لگے کہ اللہ کی قسم (سہل کے جسم اور ان کے رنگ و روپ کے کیا کہنے ) میں نے تو آج کے دن کی طرح (کوئی خوب صورت بدن کبھی ) نہیں دیکھا ۔ اور پردہ نشین کی بھی کھال (سہل کی کھال جیسی نازک وخوش رنگ ) نہیں دیکھی ۔ ابوامامہ کہتے ہیں کہ (عامر کا ) یہ کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا (جیسے ) سہل کو
گرا دیا گیا (یعنی ان کو عامر کی ایسی نظر لگی کہ وہ فوراً غش کھا کر گر پڑے ) چناں چہ ان کو اٹھا کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ ” یا رسول اللہﷺ ! آپ سہل کے علاج کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں ؟ اللہ کی قسم یہ تو اپنا سر بھی اٹھانے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کیا کسی شخص کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ اس نے ان کو نظر لگائی ہے ؟ لوگوں نے
عرض کیا کہ ( جی ہاں ) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے نظر لگائی ہے، راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) عامر کو بلایا اور ان کو سخت سست کہا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں مار ڈالنے کے درپے ہوتا ہے! تم نے سہل کو برکت کی دعا کیوں نہیں دی ( یعنی اگر تمہاری نظر میں سہل کا بدن اور رنگ و روپ بھا گیا تھا تو تم نے یہ الفاظ کیوں نہ کہے “بارک اللہ علیک”
برتن میں اپنا منہ ہاتھ کہنیاں گھٹنے دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پورے اور زیر ناف جسم ( یعنی ستر اور کولھوں ) کو دھویا اور پھر وہ پانی جس سے عامر نے یہ تمام اعضاء دھوئے تھے سہل پر ڈالا گیا ، اس کا اثر یہ ہوا کہ سہل فوراً اچھے ہو گئے اور اٹھ کر لوگوں کے ساتھ اس طرح چل پڑے جیسے ان کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا ( شرح السنتہ مؤطا امام مالک ) ”۔ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک نظر لگانے والے کے وضو کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کے
بارے میں یہ تحقیق ہو کہ اس نے نظر لگائی ہے کہ اس کے سامنے کسی برتن یعنی پیالہ وغیرہ میں پانی لایا جائے اس برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے پھر نظر لگانے والا اس برتن میں سے ایک چلو پانی لے کر کلی کرے اور اس کلی کو اسی برتن میں ڈالے پھر اس سے پانی لے کر اپنا منہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں کہنی اور دائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں کہنی دھوئے اور ہتھیلی و کہنی کے درمیان جو جگہ ہے اس کو نہ دھوئے پھر داہنا پیر اور پھر اس
کے بعد بایاں پیر دھوئے، پھر اسی طرح پہلے داہنا گھٹنا اور بعد میں بایاں گھٹنا دھوئے اور پھر آخر میں تہبند کے اندر زیر ناف جسم کو دھوئے اور ان سب اعضاء کو اسی برتن میں دھویا جائے، ان سب کو دھونے کے بعد اس پانی کو نظر زدہ کے اوپر اس کی پشت کی طرف سے سر پر ڈال کر بہا دے ۔ واضح رہے کہ اس طرح کا علاج اسرار و حکم سے تعلق رکھتا ہے جو عقل وسمجھ کی رسائی سے باہر کی چیز ہے ؛ لہذا اس بارے میں عقلی بحث کرنا لا حاصل
ہے”۔(مشکاۃ المصابیح –
اپنی رائے کا اظہار کریں