ترمذی شریف اور دیگر کتبِ احادیث میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت منقول ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک جامع دعا نقل کی گئی ہے۔ اس دعا کے الفاظ اگرچہ انتہائی مختصر ہیں، مگر اس کے مفہوم میں دنیا وآخرت کی تمام بھلائیوں اور اچھائیوں کی طلب اور
تمام مصائب و مشکلات سے پناہ شامل ہے۔ذیل میں مذکورہ روایت کا ترجمہ ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مختصر تعارف اور مذکورہ دعا سے متعلق فوائد ذکر کیے جاتے ہیں:’’عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہ ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ، فَمَکَثْتُ أَیَّامًا ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِيْ شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ، فَقَالَ لِیْ: یَا عَبَّاسُ! یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ! سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔‘‘ (ترمذی،ابواب الدعوات، ج:۲،ص:۱۹۱،ط:قدیمی)
’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ارشاد فرماتے ہیں کہ :میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرارہااور پھردوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا اورمیں نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا : اے عباس! اے رسول اللہ کے
چچا! اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔‘‘ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہحضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اور عمر میں آپ سے دو سال بڑے تھے، اسلام کی دولت سے مشرف ہونے سے قبل بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور حمایت میں پیش پیش رہتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہمیشہ فکرمندہوتے۔ ہجرت سے قبل موسمِ حج میں جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل کے افراد کو دینِ اسلام کی دعوت دیتے اور اس دوران مدینہ منورہ کے قبائل کے لوگ اسلام میں داخل ہوتے گئے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت بھی کرتے رہے، اس سلسلہ کی ایک بیعت سن ۱۳ہجری میں منعقد ہوئی، جسے ’’بیعتِ عقبہ ثانیہ ‘‘کہاجاتاہے، اس سال حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے مسلمانوں کا ایک قافلہ لے کر حج کے لیے مکہ آئے، جن میں تقریباً پچھتر افراد تھے ، ان
حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس منیٰ کی گھاٹی میں تشریف لے گئے ، اس دوران حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ انصار کے اس قافلے سے مخاطب ہوکر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت فرمایاتھا کہ: ’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی قوم میں نہایت عزت اور وقعت والے ہیں ، اور ہم ان کے حامی اور مددگار ہیں ، اور وہ تمہارے
یہاں (مدینہ) آنا چاہتے ہیں ، اگر تم ان کی پوری پوری حمایت اور حفاظت کرسکواور مرتے دم تک اس پر قائم رہو تو بہتر ہے ،ورنہ ابھی سے صاف جواب دے دو۔‘‘ (سیرۃ المصطفیٰ، انصار کی دوسری بیعت،ج:۱، ص:۳۴۱،۳۴۲، ط:الطاف اینڈ سنز)پھر انصار کی یہ جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام ہوئی ، اور باہمی عہد وپیمان باندھے گئے اور آخر میں بیعت کی گئی۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اعلانیہ طورپرفتح مکہ سے کچھ قبل اسلام کا اظہار
فرمایا۔ادب کا لحاظ رکھناحضرت عباس رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت ہی محبت اور والہانہ تعلق تھا،اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑاہی ادب کیاکرتے تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ چونکہ عمر میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال بڑے تھے، لیکن عمر کے اس تفاوت کو کبھی اس انداز میں بیان نہیں کرتے تھے، جس سے ظاہری طورپر بھی کسی قسم کی بے ادبی کا اندیشہ ہو۔ جواب دینے کا انداز ہی نرالااور کمالِ ادب
پر مبنی ہوتا تھا، اگر کوئی شخص ان سے سوال کرتاکہ: ’’أَیُّمَا أَکْبَرُ أَنْتَ أَمِ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟‘‘ اس سوال کا آسان جواب تویہ تھا کہ فرماتے : ’’میں عمر میں بڑاہوں۔‘‘لیکن بجائے اس جواب کے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے جواب کا اندازیہ ہوتاتھاکہ:’’ہُوَ أَکْبَرُ مِنِّي، وَأَنَا وُلِدْتُ قَبْلَہٗ‘‘ بڑے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں،ہاں! پیدا پہلے میں ہواتھا،یعنی میری پیدائش پہلے کی ہے، باقی بڑے تو رسولِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم ہیں۔ دیکھیے! کس قدر مؤدبانہ اندازِ گفتگو اور جواب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ ایک نمونہ ہے۔ ظاہری گفتگو میں بھی آداب اور محبت کا کس قدر لحاظ فرمایا کرتے تھے، رضي اللّٰہ عنہم أجمعین۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مقام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بڑااحترام فرماتے تھے، اور لوگوں کو بھی ا ن کے اکرام وتعظیم کا
حکم دیتے تھے۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکوہ کیاکہ یارسول اللہ!بعض لوگ آپس میں تو بڑی بشاشت کے ساتھ ملتے ہیں اور جب ہم سے آمنا سامنا ہوتاہے تو وہ بشاشت ان کے چہروں پر باقی نہیں ہوتی، ہم سے ملاقات کے وقت ان کے چہروں سے مسکراہٹ ختم ہوجاتی ہے،یعنی ہم سے اس طرح کا سلوک کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا چہرۂ انور سرخ ہوگیا اور پھر ارشاد فرمایا: ’’ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لاَ یَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِیْمَانُ حَتّٰی یُحِبَّکُمْ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’ اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کسی شخص کے دل میں ایمان اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا، جب تک وہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول کے لیے محبوب نہ رکھے۔‘‘ یعنی جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اہلِ بیت کی عظمت موجود نہ ہو، اس دل میں ایمان داخل نہیں
ہوسکتا۔ نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ مَنْ آذٰی عَمِّيْ فَقَدْ آذَانِيْ فَإِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیْہِ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے لوگو! جس نے میرے چچا کو تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی،اس لیے کہ کسی بھی شخص کا چچا باپ کی مانند ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی، مناقب ابی الفضل عم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو العباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ، ج:۲، ص:۲۱۷، ط: قدیمی) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مقامصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی عظمت کے معترف تھے اور ان کی خوب قدر وعزت فرمایا کرتے تھے۔ امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا مانگا کرتے تھے،بخاری شریف میں ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب کبھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی ہوتی تو امیر المؤمنین عمربن خطاب رضی اللہ عنہ دعا کرتے :’’اللّٰہُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِینَا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ! ہم تیرے نبی کے
وسیلہ سے تجھ سے دعا کرتے تھے، پس تو ہمیں سیراب کرتا تھا۔‘‘ اور اب پیغمبر تو دنیاسے تشریف لے گئے ہیں: ’’وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اب ہم آپ سے اپنے نبی کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں، پس تو ہمیں سیراب کر۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (اس دعا کی برکت سے) بارش ہو جاتی تھی۔ علماء نے لکھا ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا مانگتے تو حضرت عباس رضی اللہ
عنہ بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اُٹھاتے اورفرماتے کہ : ’’اے پروردگار! تیرے پیغمبر کی اُمت نے میرا وسیلہ اختیار کیا ہے، خداوند! تو میرے اس بڑھاپے کو رسوا مت کر اور مجھے ان کے سامنے شرمندہ نہ کر۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دعا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ میں اتنی تاثیر ہوتی تھی کہ جلدہی بارش شروع ہو جاتی تھی۔ بہرکیف! مذکورہ روایت میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے دو بار سوال کیا
اور دونوں بار جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محبوب چچا کو عافیت کی دعا مانگنے کا حکم دیا۔ اس سے عافیت کی دعا مانگنے کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ عافیت کیا ہے ؟اب سوال یہ ہے کہ عافیت کے معنی کیا ہیں؟ جس کے مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ: عافیت نہایت ہی مختصر اور جامع لفظ ہے،اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت بلکہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’’جوامع
الکلم ‘‘یعنی ایسے مختصر کلمات عطا فرمائے تھے جن کے معانی انتہائی گہرے اور عمیق ہوں۔ ایک طویل حدیث میں خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو خصوصیات عطا فرمائی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: ’’ وَأُوْتِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’مجھے جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔‘‘ اور اس کامطلب یہ ہے کہ دین کی حکمتیں اور احکام، ہدایت کی باتیں، مذہبی ودنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں کو بیان کرنے کا ایسا
مخصوص اسلوب اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے جو نہ پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ انسان کو نصیب ہوا! اور اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ انتہائی مختصر سے الفاظ کے ایک چھوٹے سے جملہ میں معانی ومفہوم کا ایک گنجینہ پنہاں ہوتا ہے۔ اگر اس جملہ کو پڑھیں اور لکھیں تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو، لیکن اس کا فہم اور وضاحت اور تشریح بیان کریں تو کتاب کی کتاب تیار ہوجائے، چنانچہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے جن کو ’’ جوامع الکلم‘‘ کہا جاتا ہے، لہٰذایہ عافیت کی دعابھی ’’ جوامع الکلم‘‘ میں سے ہے، یعنی جامع دعاؤں میں سے ہے، اس لیے ہر انسان کو اسے یاد کرنا چاہیے اور ہمہ وقت اللہ سے عافیت کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔ صاحبِ مظاہرِ حق علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ لکھتے ہیں’’اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو بہت پسند کرتا ہے، اس کے برابر اور کسی چیز کے
مانگنے کو پسند نہیں کرتا۔ عافیت کے معنی ہیں: دنیا و آخرت کی تمام ظاہری و باطنی غیر پسندیدہ چیزوں، تمام آفات و مصائب، تمام بیماریوں اور تمام بلاؤں سے سلامتی و حفاظت، لہٰذا عافیت‘ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہے۔ جس نے عافیت مانگی، اس نے گویا دنیا وآخرت کی تمام ہی بھلائیاں مانگ لیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو پسند کرتا ہے، (نسأل اللّٰہَ العافیۃَ)۔‘‘حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمۃ اللہ علیہ قریب کے زمانہ میں بڑے بزرگ گزرے
ہیں، حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ:’’عافیت بہت بڑی چیز ہے،بہت اونچی نعمت ہے، اور عافیت کے مقابلے میں دنیاکی ساری دولتیں ہیچ ہیں، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ نیز وہ فرماتے تھے کہ: عافیت دل ودماغ کے سکون کو کہتے ہیں، اور یہ سکون اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتاہے۔یہ دولت اللہ تعالیٰ بغیر کسی سبب اور استحقاق کے عطا فرماتے ہیں۔ عافیت کوئی آدمی خرید نہیں سکتا، نہ روپیہ
پیسے سے عافیت خریدی جاسکتی ہے، نہ سرمایہ سے اور نہ ہی منصب سے کوئی عافیت حاصل کرسکتا ہے۔ عافیت کا خزانہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے پاس ہے، اس کی ذات کے سوا کوئی عافیت نہیں دے سکتا۔‘‘
اپنی رائے کا اظہار کریں