جب آپ کی ہر امید ہر پریشانی میں جب ساتھ چھوڑ جب آپ کی امیدیں آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں جب آپ کی ہر سوچ آپ کا سات چھوڑ جائے تب آپ یہ وظیفہ کیجئے تو اللہ کے حکم سے آپ کی مدد اللہ تعالیٰ ضرور فرمائیں گے کیونکہ یہ ایسا عمل ہے جو کبھی بھی خطا نہیں ہوتا ہے اور اس کے بارے میں خود قرآن
کریم نے آگے مدد کا پروانہ جاری کیا جب یہ قرآن کی آیت نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو بھی اس کے ذریعہ سے مدد مانگے گا اس کی مددد ضرور کروں گا۔اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ فرمان مُبارک اِس بات کی دلیل ہے کہ اللہ ہم سے بالکل قریب ہے اور ہماری دُعائیں سُنتا ہے اور قُبول فرماتا ہے۔ پس لوگوں کا یہ کہنا اور سمجھنا کہ اللہ تو ہماری سُنتا نہیں، یا فُلاں لوگوں کی سنتا ہے اور فُلاں لوگوں کی نہیں سنتا، فُلاں کی مانتا ہے، اور فُلاں کی نہیں مانتا،ہماری سنتا
نہیں اور فُلاں کی ٹالتا نہیں،اِس قِسم کے سب ہی عقائد اور خیالات اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس فرمان مُبارک کا بھی اِنکار ہیں، یعنی دوسرے اِلفاظ میں یہ کہا جائے گا کہ ایسے عقائد یا خیالات اللہ تبارک و تعالیٰ کے مذکورہ بالا فرمان کا کفر ہیں۔ اِس کفریہ عقیدے اور خیال کا شِکار کرنے کے بعد شیطان مردود اور اُس کے پیروکار، اللہ کے بندوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا کرنے میں شِرک کی راہوں پر گامزن کر دیتے ہیں، اور اللہ عزّوجلّ کوبراہ راست پُکارنے اور
براہ راست اُس سے دُعا کرنے کے بجائے اُنہیں اللہ کے ساتھ شریک بنانے، اور شریک اپنانے میں لگا دیتے ہیں۔یہ بھی یاد رکھیے، اور ہمیشہ یاد رکھیے کہ کوئی بھی بات پہلے سُنی جاتی ہے اور پھر قُبول یا رَد کی جاتی ہے، اور ہمارے اللہ عزّوجلّ نے ہمیں یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ دُعائیں قُبول کرتا ہے، لہذا دُعائیں سُنا جانا تو قُبول کیے جانے سے زیادہ یقینی امر ہوا، لہذا ہمیں اللہ جلّ جلالہ کی طرف سے یہ مذکورہ بالا خوش خبری والا اعلان سننے، پڑھنے کے بعد
نہ صِرف ایسے کفریہ عقائد اور خیالات سے توبہ کرتے ہوئے اُنہیں ترک کرنا چاہیے بلکہ یہ بھی سوچنا بلکہ سمجھنا چاہیےکہ جب خود اللہ تعالیٰ نے ہی ہمیں بتا دِیا کہجب (کوئی) مجھے پکارتا ہے (دُعا، سوال کرتا ہے) تو میں دُعا کرنے والے کی دُعا قُبول کرتا ہوں تو پھر ہمیں کِسی شک کے بغیر، کِسی دھوکے اور کِسی فلسفے کے بغیر مان لینا چاہیے اور اِس پر اِیمان رکھنا چاہیے کہ اللہ پاک ہماری دعائیں قُبول فرماتا ہے، پس ہمیں اِس فرمان مُبارک پر مکمل اِیمان رکھنا
چاہیے۔ اگر ہمیں ہماری دُعائیں قُبول ہوتی ہوئی محسوس نہیں ہوتِیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ کے مُطابق ہی اِس معاملے کو سمجھنا چاہیے، نہ کہ اُن کے فرامین مُبارکہ کے خِلاف۔ آیت کریمہ لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین خود دعاؤں کی قبولیت کا وظیفہ ہے ، ان الفاظ کے ساتھ دعاؤں کا قبول ہونا حدیث سے ثابت ہےرسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ذوالنون ( یعنی یونس علیہ السلام ) کی وہ
دعا جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ کے اندر مانگی تھی (یعنی لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ) جو مسلمان اپنے کسی بھی مقصد کے لیے ان کلمات کےاکثر لوگ دعا کرتے اور اسکے قبول نہ ہونے پر پریشان بھی ہوتے ہیں حالانکہ کسی کی دعا رد نہیں ہوتی ۔ اسکی قبولیت کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین
اپنی رائے کا اظہار کریں