اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی کیلئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کو مبعوث فرما یا ۔اس کا سلسلہ حضرت آدم ؑ سے شروع ہوا اور اس کا اختتام حضرت محمدﷺ کی ذات اقدس پر ہوا۔ حضرت آدمؑ کا ذکر کیا جائے تو حضرت جبرائیلؑ کو حکم دینا وہ یاد ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل ؑ کو حکم کے قرہ عرض
سے مٹی لے کر آؤحضرت ابو موسیٰ سریح ؓ اس بارے میں فرماتے ہیںکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو ایک مٹھی خاک سے پیدا فرمایا۔ یہ مٹی تمام روئے زمین حاصل کی گئی تھی ۔ اس لیے آدم ؑ کی نسل تمام رنگ ونسل کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے جب اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا فرمایا اور ان میں روح پھونکی تو چھینک آئی تو الحمداللہ کہا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے برحمک ربک فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو چار عظیم شرف مرتبے
عطاء فرمائے ۔ نمبرایک اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا۔روح پھونکی ، فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اشیاء کے ناموں کے علم سے سرفراز فرمایا۔ یہ حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا واقعہ ہے ۔ حضرت آدم ؑ اورحواؑ کے ذکر کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ یوں تو جنت میں تمام آسائشیں نعمتیں موجود تھیں۔ لیکن حضرت آدم ؑ تنہائی اور اجنبیت محسوس کرتے تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انکی تنہائی کا بندوست کرتے ہوئے حضرت حواؑ کو پیدا فرمایا۔ محمد بن اسحاق حضرت ابن
عباس سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حواؑ کو حضرت آدم ؑ کی چھوٹی پسلی سے پیدا فرمایاجبکہ وہ سو رہے تھے ۔ وہ اور انکی جنت میں سکونت فرمائیں جہاں سے چاہو بلا روک ٹوک کھائو لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا توظالموں میں سے ہوجائو گے ۔ روایت میں ہے کہ آدم ؑ سو سال یا ساٹھ سال جنت میں رہے ۔ اس عرصے میں دونوں پر جنت کے کسی بھی حصے میں جانے پر پابندی نہ تھی ۔سوائے شجرممنوعہ کے ۔شیطان اب ان دونوں کو کھلا دشمن تھا۔ اور
اپنی سزا کا بدلہ لینے کیلئے بے قرار بھی تھا ۔ اسکی شدید خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کریں۔ شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں بے پردہ ہوجائیں اس نے انہیں کہا کہتمہارے رب نے ان دونوں کو اس درخت سے اس لیے منع فرمایا کہ کہیںیہ پھل کھا کر تم فرشتے نہ ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ شیطان کے ان باتوں نے حضرت حواؑ کو سوچنے پر مجبور کردیا
شیطان کی مسلسل سازشیں رنگ لائیں اور اس نے حواؑ کو پھل کھانے پر مجبور کردیا۔ ایک حضرت حواؑ نے حضرت آدم ؑ کو کہا کہ ہم شجر ممنوعہ کا ذرا سا حصہ کھاکردیکھیں ۔شروع میں حضرت آدم ؑ اس کیلئے قطعی طور پر تیار نہ تھے پھر حضرت حواؑ کے مسلسل اسرار پر تیار ہوگئے ۔ ابھی ان دونوں پھل کو پوری طور پر چکھا نہ تھا کہ ان کی ستر گاہیں ایک دوسرے پر عیاں ہوگئیں اس پر دونوں بدحواسی او ر پریشانی میں جنت کے درخت کے پتوں کو توڑ توڑ
کر اپنا بدن چھپانے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو فرمایا کہمیں نے تم لوگوں کو منع نہیں کیا تھا کہ اس درخت کا پھل نہ کھانا اور شیطان کے ورغلانے میں نہ آنا یہ تمہارا دشمن ہے ۔ دونوں نے جب اللہ تعالیٰ کی پکار سنی مارے خوف الٰہی کے کانپ اُٹھے نہایت ناچارگیاور عاجزی سے اپنی خطاء پر نادم شرمندہ ہوتے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا اے ہمارے رب ہم دونوں سے غلطی ہوگئی تو آپ نے ہم پر رحم وکرم نہ کیااور معاف نہ کیا تو ہم برباد ہوجائیں گے ۔ حق تعالیٰ
نے فرمایا کہ تم دونوں ایک خاص مدت تک زمین پر رہو گے جہاں تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے یہاں پر مروگے اور اسی میں سے پھر پیدا ہونا ہے ۔ چنانچہ دونوں کو زمین کی طرف روانہ کردیا گیا روایت میں ہے کہ حضرت آدمؑ کو ہند اور حضرت ہواؑ کو جدا اور ابلیس کو بصرا کے چند میل کے فاصلے پر دمس عمران کے مقام پر اتارا گیا کہکردیکھیں ۔شروع میں حضرت آدم ؑ اس کیلئے قطعی طور پر تیار نہ تھے پھر حضرت حواؑ کے مسلسل اسرار پر تیار ہوگئے
۔ ابھی ان دونوں پھل کو پوری طور پر چکھا نہ تھا کہ ان کی ستر گاہیں ایک دوسرے پر عیاں ہوگئیں اس پر دونوں بدحواسی او ر پریشانی میں جنت کے درخت کے پتوں کو توڑ توڑ کر اپنا بدن چھپانے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کو منع نہیں کیا تھا کہ اس درخت کا پھل نہ کھانا اور شیطان کے ورغلانے میں نہ آنا یہ تمہارا دشمن ہے ۔ دونوں نے جب اللہ تعالیٰ کی پکار سنی مارے خوف الٰہی کے کانپ اُٹھے نہایت ناچارگیاور عاجزی سے اپنی خطاء
پر نادم شرمندہ ہوتے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا اے ہمارے رب ہم دونوں سے غلطی ہوگئی تو آپ نے ہم پر رحم وکرم نہ کیااور معاف نہ کیا تو ہم برباد ہوجائیں گے ۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دونوں ایک خاص مدت تک زمین پر رہو گے جہاں تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے یہاں پر مروگے اور اسی میں سے پھر پیدا ہونا ہے ۔ چنانچہ دونوں کو زمین کی طرف روانہ کردیا گیا روایت میں ہے کہ حضرت آدمؑ کو ہند اور حضرت ہواؑ کو جدا اور ابلیس کو بصرا کے
چند میل کے فاصلے پر دمس عمران کے مقام پر اتارا گیا کہجب آدمؑ جنت سے ہند میں اُترے تو ان کے پاس ہجر اسود تھا اور جنت کے درختوں کے پتوں کی ایک مٹھی بھی تو حضرت آدم ؑ نے ان پتوں کو زمین پر پھیلا دیا اور یہ خوشبو دار درخت ان پتوں کی ہی پید ا وار ہیں۔ حضرت جبرائیلؑ حضرت آدم ؑ کے پاس آئے اور گندم کے سات دانے ساتھ لائے ۔حضرت آدم ؑ نے پوچھا یہ کیا ہے کہ یہ اُس درخت کا پھل جس سے آپ کو روکا گیا تھا لیکن آپ نے تناول کردیا تھا ۔
عرض کیا ان کو زمین میں بودیجئے ۔ حضرت آدمؑ نے بو دئے اوروہ دانے اس دنیا کے دانوں میں لاکھ درجے زیادہ تھے وہ دانے اُگے اور حضرت آدمؑ نے فصل کاٹی ۔ پھر دانوں کو بھوسے سے جدا کیا اور پھر صفائی کی پیس کر آٹا گوندا اور روٹی پکائی پھر محنت مشقت کے بعد کھانا کھایا۔آج کا سوال یہ ہے کہ حضرت حواؑ کتنی بار حاملہ ہوئیں اور کتنے بچوں کو انہوں نے جنم دیا۔ اماں حواؑ کے بارے میں یہ بات آتی ہے کہ وہ بیس بار حاملہ ہوئیں اور چالیس بچوں کو
جنم دیا۔ آپ کی وفات آدمؑ کے ایک سال بعد ہوئی اور اسکے انہیں ان کے جوار میں سپرد خاک کیا گیا۔ حواؑ کے اختلافجو دفن میں بارے میں آتا ہے بعض نے کہا کہ حواؑ جدا میں اُتری اور وہیں دفن ہوئیں ۔ اب ان تمام تر واقعات میں سچائی اور حقیقت تو تاریخ کے ماہرین وہی بتا سکتے ہیں لیکن تمام تر چیزیں جو کہ حقیقت کے قریب ترین اور مختلف روایات میں ہیں۔شکری
اپنی رائے کا اظہار کریں