حضرت علی نے فرمایا:بیوی کی نیند خراب کرنے سے کیا ہوتا ہے

نیند خراب

ہمارے مذہب نے شوہر کی متعین فرمائی اور بیوی کے حد بھی مقرر فرمائی ہے ۔ اگر دونوں اپنی حدود میں رہ کر زندگی گزاریں تو بڑی خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔آقائے دو عالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے مؤمنین میں قابل اعتماد والا وہ شخص جو اپنے اخلا ق میں سب سےاچھا ہے ۔ تم میں سب سے زیادہ وہ

لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کیلئے سب سے زیادہ اچھے ہوں۔ حضرت علی ؓ نے بیوی کی نیند خراب کرنے کے حوالے سے کیا فرمایا او ر بیوی کیساتھ سلوک کے حوالے سے حضورﷺ نے کیا درس دیا ۔ حضر ت علی ؓ کو ایک مرتبہ ایک شخص نے اپنے ساتھ جانے کی دعوت دی تو حضرت علی ؓ اس شخص کے ساتھ گھر تشریف لے گئے آپ ؓ اس شخص کے گھر پہنچے تو دیکھا اس شخص کی بیوی سو رہی ہے ۔اس شخص نے حضرت علی ؓ سے کہا آپ رکیں میں بیوی کو

جگاتا ہوں تو آپ ؓ نے اس شخص کو منع فرمایا کہ اپنی بیوی کو مت جگانا کیونکہ مؤمن کا سونا بھی عباد ت اور عبادت میں خلل پیدا نہیں کرنی چاہیے ۔ تمہیں کیا معلوم نہیں کہ تمہاری بیو ی ابھی تھک کر آرام کرنے لیٹی ہو اورتم اپنی آسائش کیلئے اسے جگہ د و یہ مناسب نہیں ہے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے مؤمن وہ ہے جو دوسروں کیلئے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہیں کوئی نیند سے جگائے ۔ ازدواجی تعلق سب

سے مضبوط بنیاد جذبہ محبت ہے یہ جذبہ موجود ہو تو میاں بیوی خوشگوار زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں اور تربیت اولاد پر اچھے اثرات بھی مرتب کرتے ہیں ۔ حضر ت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور تم میں بہترین وہ لوگ جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہوں ۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جان لوکہ تم میں سب سے بہتر وہ جو اپنے گھر والوں کیلئےبہتر ہے

۔آپﷺ کا ارشاد ہے کہ جو اپنی بیوی کی بدخوئی پر صبر وتحمل سے کام لے گا اس کو اتنا ثواب ملے گا جتنا حضرت ایوب ؑ کو ملا تھا جب انہوں نے اپنے مصیبتوں آفات اور بلاؤں کو انتہائی صبر سے برداشت کیا تھا ۔ جو عورت اپنے خاوند کی بدمزاجی اور تنگ خوئی کو صبر سے برداشت کریگی اسے فرعون کی بیوی آسیہ کے برابر ثواب ملے گا۔ عورت میں ایک ایسی چیز موجو دہوتی ہے ۔جسے ذوف کے سوا اور کسی چیز سے منسوب نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اور وہ

جو ٹیڑھا پن ان میں پایا جاتا ہے اس کا علاج بہرحال تنبیح اور ڈانٹ ہی ہے ۔ مرد کو چاہیے ایک طبیب اور معلم کا کردارادا کرے ۔استاد کی طرح عورت کو تمام امور سمجھائے رکھے اور طبیب کی طرح ہر علت کا علاج بھی موقع کی مناسبت سے کرتا رہے ۔ مجموعی طور پر صبر وتحمل ہی کو غالب رہنے دیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ عورت کی مثال پہلو کی ہڈی کی سی ہے اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کریں تو وہ ٹوٹ جاتی ہے پیار محبت کے اظہار میں

چھوٹے چھوٹے فعل بھی اللہ کے ہاں سے اجرکثیر کا باعث بنتے ہیں۔ اگرشوہر محبت سے روٹی کا ایک لقمہ اپنے ہاتھ سے بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے اس کا شمار بھی عباد ت میں ہوگا محبت کا یہ فعل ایسے ہی دوسرے فعل اللہ کے ہاں شرف قبولیت پاتے ہیں۔

اپنی رائے کا اظہار کریں