حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں جب مکہ معظمہ میں پہنچی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر آئی تو میں نے دیکھا کہ جس کمرہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے وہ کمرہ سارا چمک رہا تھا میں نے حضرت آمنہ رضی عنہا سے پوچھا کیا آپؓ نے اس کمرہ میں
بہت سے چراغ جلا رکھے ہیں تو حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا نہیں۔ بلکہ یہ ساری روشنی میرے لخت جگر پیارے بچہ کے چہرے کی ہے حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں اندر گئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ سیدھے لیٹے ہوۓ سو رہے ہیں اور اپنی مبارک ننھی انگلیاں چوس رہے ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن جمال دیکھا تو فریفتہ ہو گئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میرے بال بال میں رچ گئی
پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرانور مبارک کے پاس بیٹھ گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چشمان مبارک کھول دیں۔ اور مجھے دیکھ کر مسکرانے لگےاللہ اکبر میں نے دیکھا کہ اس نور بھرے منہ سے ایک ایسا نور نکلا جو آسمان تک پہنچ گیا پھر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا کر بہت پیار کیا پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
لے کر واپس چلنے لگی تو حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے زاد راہ کے لیے کچھ دینا چاہا تو میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پا لینے کے بعد اب مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب میں اس نعمت عظمی کو گود میں لے کر باہر نکلی تو مجھے ہر چیز سے مبارک باد کی آوازیں آنے لگیں کہ اے حلیمہ رضی للہ عنہا رضاعت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجھے مبارک ہو پھر جب میں اپنی سواری پر بیٹھی
تو میری کمزور سواری میں بجلی جیسی طاقت پیدا ہو گئی کہ وہ بڑی بڑی توانا اونٹنیوں کو پیچھے چھوڑنے لگی سب حیران رہ گۓ کہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کی سواری میں یک دم یہ طاقت کیسے آ گئی؟ تو سواری خود بولی میری پشت پر اولین و آخرین کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار ہیں انہیؐ کی
برکت سے میری کمزوری جاتی رہی اور میرا حال اچھا ہو گیا نیکی کی بات کو پھیلانا بھی صدقہ جاریہ ہے اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین
اپنی رائے کا اظہار کریں