جب کسی کو کوئی حاجت درپیش ہو تو دو یا چار رکعت نفل بعد نماز عشاء پڑھے۔ حدیث میں ہے پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور تین بار آیت الکرسی پڑھے اور باقی تین رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ اور قل ہو اللہ احد، قل اعوذبرب الفلق، قل اعوذ بر ب الناس ایک ایک بار پڑھے۔تو یہ ایسی ہیں
جیسے شب قدر میں چار رکعتیں پڑھیں۔ پھر اپنی حاجت کا سوال کرے۔ ان شاء اللہ تعالٰیٰ اس کی حاجتروا ہوگی۔ مشائخِ کرام فرماتے ہیں۔ ہم نے یہ نماز پڑھی اور ہماری حاجتیں پوری ہو ئیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ سے یا مخلوق میں سے کسی سے کوئی حاجت در پیش آئے تو وہ وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے اور پھر یہ دعا پڑھے لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيْمُ الْکَرِيْمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، اَللَّهُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، أَسْأَلُکَ أَنْ لَا تَدَعَ لِیْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً هِیَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا لِی.ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فی صلاةِ الحاجة، 2 : 171، 172، رقم : 1384’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ برد بار بزرگ ہے بڑے عرش کا مالک، اے اللہ تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمامجہانوں کا پالنے والا ہے، (اے اللہ!) میں تجھ سے تیری رحمت کے ذریعے
بخشش کے اسباب، نیکی کی آسانی اور ہر گناہ سے سلامتی چاہتا ہوں، میرے تمام گناہ بخش دے میرے جملہ غم ختم کر دے اور میری ہر وہ حاجت جو تیری رضا مندی کے مطابق ہو پوری فرما۔‘‘پھر اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی جس بات کی طلب ہو سوال کرے وہ اس کے لیے مقدر کر دی جاتی ہے۔ 2 ترمذی، ابن ماجہ، احمد بن حنبل، حاکم، ابن خزیمہ، بیہقی اور طبرانی نے بروایت حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اس کی حاجت برآری کے لیے دو رکعت نماز کے بعد درج ذیل الفاظ کے ساتھ دُعا کی تلقین فرمائی جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیاتباع میں اپنی حاجت برآری کے لیے اسی طریقے سے دو رکعت نماز کے بعد دعا کرتے تھے :اَللّٰهُمَّ! إِنِّی أَسَأَلُکَ وَ أَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ! إِنِّی قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی هٰذِهِ لِتُقضَی، اَللّٰهُمَّ! فَشَفِّعْهُ فِیَّ۔ ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ماجاء فی صلاة الحاجة، 2 : 172، رقم : 1385’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں
اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں کہ پوری ہو۔ اے اللہ میرے حق میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
اپنی رائے کا اظہار کریں