میں آج آپ کو ایک معصوم لڑکی پر بیتی دکھ بھری کہانی سنانے کے لیے جا رہی ہوں۔ لیکن کہانی سنانے سے پہلے میری ایک گزارش ہے کہ میری اس کہانی کو غور سے سنیے گا۔ آسمہ نے جب سے ہوش سنبھا لا تھاسمجھدار ی کی باتیں کرنے لگی تھی سب کہتے تھے کہ آسمہ جس
گھر میں جائے گی اس کے نصیب جاگ جائیں گے۔مگر افسوس کہ آسمہ کے نصیب سو گئے تھےپہلے یہ لوگ کرایہ کے مکان میں رہتے تھے مگر جب سے ابا کا قراندازی میں پلاٹ نکل آیا تھا اسے اس کو بنانے کی دھن سوار ہو گئی وہ قرض کی کوششوں میں لگی ہوئی تھی پھر ان کی نظر ایک ایسے شخص پر گئی جو ہڈی دیکھ کر بکرا وصول کرنے والے تھے یہ ایک حکیم صاحب تھے جو جنو بی پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر میں رہتے تھے۔ اور انہیں حکیم صاحب کے نام سے ہی جانتے تھے ان کےہاتھ میں ایسی شفا ء تھی کہ آس پاس کے سبھی لوگ ہر چھوٹےبڑے مرض کی دوا انہی سے لیتے تھے اور یوں حکیم صاحب کا مکتب بھی خوب چلتا تھا جب آسمہ نے حکیم صاحب سے قرض ما نگا تو حکیم صاحب تو گو یا سوچوں
میں پڑ گئے پہلے کہا کہ جگہ دیکھا ؤ جب ان کا گھر دیکھنے آئے تو گھر تو دیکھ لیا مگر ان کی نظر آسمہ پر پڑ گئی ۔حکیم صاحب واپس تو چلے گئے مگر اپنی میلی نظریں وہیں چھوڑ آ ئے گویا یہ دھان پان سی لڑکی سیدھا حکیم جی کے دل میں اتر گئی تھی آسمہ کے آٹھ بہن بھائی او ر تھے چھ بہنیں اور دو بھائی جب کہ آسمہ سے چھوٹی شازیہ بہت ہی خوبصورت تھی اس کی عمر بیس سال کی تھی اور آسمہ کی عمر چوبیس سال تھی شکل و صورت تو اچھی تھی مگر وہ معاملہ فہم بھی کافی تھی شازیہ کی وجہ سے اس کا حسن دبتہ ہوا محسوس ہوتا تھا جب بھی کوئی رشتہ آتا تو شازیہ کے نظر ہو جاتا آج کل بھی ایک انجینئر کا رشتہ آیا ہوا تھا مگر ابا مکمل طور پر پیسے پیسے و محتاج تھے۔ ادھر ستر سالہ شہر یار نے اس شرط پر قرضہ دینے کی حامی بھری تھی کہ آسمہ کا نکاح ان سے کر دیا جائے پہلے تو حکیم صاحب کی بات پر بہت ہی زیادہ حیرانی
ہوئیابا کا چہر ہ سرخ ہو گیا مگر اماں نے کہا کہ اگر اتنا پیسہ اس لڑکی کے بدلے میں مل رہا ہے تو ہمیں کیا چاہیے ہمارا بیٹھے بٹھائے مکان بن جائے گا اور آسمہ کی شادی بھی ہو جائے گی اس طرح مکان بھی بن گیا آسمہ بھی دھوم دھام سے بیاہ گئی مگر آسمہ اس معاملے کے بھین چڑھ گئی آسمہ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی اس کی شادی زبردستی حکیم صاحب سے طے کر دی گئی تھی شادی کی رات اس نے حکیم صاحب نے سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا۔ اسے ان سے عجیب سے گھن آتی تھی اور پر رات اترنے لگتی آسمہ کے چہرے پر گم و رنج کے سائے گردش کر نے لگتے ادھر حکیم صاحب کھلتے ہی جاتے انہیں اس عمر میں ایک چوبیس سالہ لڑکی کی رفاقت جو مل گئی تھی سب جانتے تھےکہ جوانی اور بڑھاپے کا میل نہیں ہوتا لہٰذا رفتہ رفتہ آسمہ کے دل میں شہر یار کی نفرت جڑ پکڑنے لگی ۔ وہ تنہائی میں ٹھنڈے دل سے اپنے حالات پر غور
کر تی اور اس حل کے بارے میں سوچا کرتی کہ اپنے بوڑھے شوہر کی رفاقت سے جان چھڑائے مگر اس گھر میں تو سوچنے کا موقع بھی نہیں حکیم صاحب کے پانچ بیٹے اور پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھیں۔ بے شک کہ ان کا گھر بہت بڑا تھا مگر اتنے لوگوں کی آواز کو دماغ کو خراب کر کے رکھ دیا تھا پھر بھی جب سناٹا ہوتا تو آسمہ کی سوچ بچار کے دروازے کھل جاتے۔ سوچ بچار کے بعد اسے اپنے شوہر کے بڑھاپے کا ایک حل سمجھ میں آیا تھا مگر یہ کافی دیر تلک تھا۔ اوپر سے آسمہ کی بد قسمتی یہ کہ اس کا میکا بھی اس کا ساتھی نہیں تھا
اپنی رائے کا اظہار کریں