بادشاہ کو درویش کی ایک خوبصورت نصیحت

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ خوشحالی کے دن
تھے۔ ایک دن بادشاہ کی ملاقات ایک درویش بزرگ سے ہوئی۔ بزرگ بہت ہی نیک اور
پرہیزگار تھا۔

بادشاہ ان سے بہت عزت سے پیش آیا اور ملاقات کے آخر میں ان سے فرمائش کی کہ مجھے
کوئی ایسی چیز, تعویذ, وظیفہ وغیرہ لکھ دیں۔ جو انتہائی مشکل وقت میں میرے کام
آئے۔ بزرگ خاموش رہے۔ لیکن بادشاہ کا اسرار بڑھا۔

تو انہوں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ اس کاغذ کو اس وقت
کھولنا جب تم سمجھو کہ بس اب اس کے آگے تم کچھ نہیں کر سکتے یعنی اس کاغذ کو
انتہائی مشکل وقت میں کھولنا۔

قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ ہی عرصے بعد اس ملک پر ح=م=ل=ہ ہو گیا اور د=ش=م=ن کی فوج
نے بادشاہ کی فوج کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ بادشاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور
وہ بھاگ کر کسی جنگل کے غار میں چھپ گیا۔

دشمن کی فوجیں اس کے پیچھے تھی اور وہ تھک کر اپنی م=و=ت کا انتظار کر رہا تھا۔ پھر
اچانک اس کے ذہین میں درویش بابا کا دیا ہوا کاغذ یاد آیا۔ اس نے اپنی جیبیں
ٹٹولی، تو وہ کاغذ خوش قسمتی سے اس کے پاس ہی تھا۔

سپاہیوں کے جوتوں کی آہٹ اس کے قریب آتی سنائی دے رہی تھی۔ اب اس کے پاس کاغذ
کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ جب اس نے کاغذ کھولا تو اس پر لکھا ہوا تھا یہ
وقت بھی گزر جائے گا۔

بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ بزرگ نے میرے ساتھ یہ کیا کھیل کھیلا ہے۔ لیکن افسوس وہ
کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے تحریر کو کئی بار پڑھا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں
آ رہا تھا کہ درویش نے یہ کیا لکھا ہے اور یہ کیوں لکھا ہے؟

بالآخر اس نے اپنی تلوار پکڑی اور سپاہیوں کا انتظار کرنے لگا۔ سپاہی آئے تو اس
نے مقابلہ کیا اور وہ بچ نکلا۔ اس کے بعد کئی مدت تک بادشاہ بہت خوار ہوا۔ کافی
سال وہ اس مصیبت کو جھیلتا رہا۔

آخر کار اس نے دوبارہ ہمت کی اور اپنی فوج اکٹھی کرنا شروع کر دی۔ کافی سالوں کی
محنت کے بعد اس نے اپنی فوج اکٹھی کر لی اور دوبارہ سے اس ملک پر حملہ کر دیا اور
خوش قسمتی سے اس جنگ میں اس کو فتح نصیب ہوئی اور وہ ایک بار پھر اس سلطنت کا
بادشاہ بن گیا۔

اس کی بہادری کے قصے دور دور تک مشہور ہو گئے اور رعایا میں اس کا خوب تذکرہ ہوا۔
اس کے دربار میں اور دربار سے باہر بھی لوگ صرف اپنے بہادر بادشاہ کو دیکھنے کے
لیے آنے لگے۔ اتنا بول بالا دیکھ کر بادشاہ کے دل میں غرور پیدا ہوا اور وہ اپنی
شجاعت پر اور سلطنت پر تھوڑا مغرور ہوا ہی تھا کہ اچانک اس کے دل میں بزرگ کا
لکھا ہوا فقرہ یاد آیا کہ “یہ وقت بھی گزر جائے گا”۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ وقت جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مشکل وقت میں
صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اپنے اچھے وقت میں اپنے آپ کو تکبر سے
بچائیں۔ کیونکہ وقت جیسا بھی ہو اچھا ہو یا برا ہو گزر جاتا ہے۔

اپنی رائے کا اظہار کریں