پاکستان ٹپس ! جس نے بھی کلمہ طیبہ پڑھا ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی مکمل اطاعت کرے اور ان کاموں سے اجتناب کرے جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کیلئے ایسی حدود قائم کی ہیں۔ جن میں رہ کر زندگی گزارنا اس کیلئے لازم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن وحدیث کے ذریعے اس انسان کو یہ بتا دیا ہے کہ اس کیلئے کیا جائز ہے اور کیا نا جائز ۔اس کیلئے کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے؟ اور حرام کے بارے میں فرما دیا گیا کہ
حرام کا ایک لقمہ بھی کسی کے پیٹ میں چلا گیا تو اس کی چالیس دن تک عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ آج کا مسلمان خن۔زیر کے گ و شت سے تو قراحیت محسوس کرتا اس کو حرام جانتا ہے ۔ لیکن اپنی زندگی میں یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ کیا وہ پیسے کی ل۔الچ میں طریقہ اختیار کرتا ہے آیا وہ حلال ہے یا حرام جس شخص کی کمائی حرام ہوگی تو اس کی اولاد نافرمان ہوتی ہے ۔ آج اگر ہم اپنے معاشرے میں مشاہدہ کریں تو اکثر والدین کو شکایت ہے کہ ان کی اولاد نا فرمان ہے۔ اسی لیے چاہیے کہ ہم اپنی کمائی کے طریقوں پر نظر ثانی کریں اور حرام سے اپنے آپ کو بچائیں ۔ آج ہم ایک اہم مسئلہ کے بارے میں بتائیں گے جو معاشرے میں عام ہے ہمارے محلے بازاروں میں کچھ لوگ مل کر کمیٹی ڈالتے ہیں ۔ایک مختص رقم ہر ماہ ممبر کو جمع کروانی پڑتی ہے۔ اور مہینہ کے آخر میں اکٹھی رقم ایک ہی شخص کو مل جاتی ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ ہم کمیٹی ڈالتے ہیں یہ جائز ہے
یا نا جائز فقہاء کا اس بارے میں کیا کہنا ہے ۔کمیٹی کے ذریعے مالی مدد کا حصول ممکن بنانا کوئی عمل نہیں بلکہ بہت پرانہ طریقہ ہے ۔ آپ کو بتاتے چلیں وقت کیساتھ کمیٹی کے طریقوں میں کچھ نئے طریقے رواج پک۔ڑ چکے ہیں۔ کسی کمیٹی کو لکی کمیٹی کا نام دیا جاتا ہے۔ اور کسی کمیٹی کو بولی کمیٹی کہا جارہا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کمیٹی ڈالنے کی اجاز ت دیتا ہے۔ یا نہیں کمیٹی کا کونسا طریقہ جائز ہے اور کونسا طریقہ ناجائز ہے ۔ ایک خاتون سائل کی جانب سے کمیٹی ڈالنے کی شرعی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تو مفتی صاحب نے یوں وضاحت فرمائی کمیٹیاں اس طرح ڈالی جائیں کہ اگر ممبران کو اپنی باری آنے پر رقم ملے اور شروع سے آخر تک ممبران کمیٹیاں بڑھتے رہیں تو ایسی صورت میں یہ عمل جائز ہوگا ۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے ان مفتی صاحب نے کہا کہ عمومی طور پر لوگ اپنی بڑی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کمیٹیاں ڈالتے ہیں جس میں ممبران کی مخصوص تعداد مقررہ ہر ماہ رقم جمع کرواتی ہے
یوں ایک رقم اکٹھی ہوجاتی ہے۔ جو قرعہ اندازی کرکے ایک رکن کو دے دی جاتی ہے ۔ تاہم قرعہ اندازی نہ آنیوالا ممبر بھی کمیٹی ختم ہونے تک اپنا ماہانہ کمیٹی بھرتا رہتا ہے یہ تمام معاملہ باہمی رضا مندی سے طے ہوتے ہیں ایسی صورت میں کمیٹی جائز ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ کئی کاروباری حضرات جو ایسی کمیٹیاں ڈالتے ہیں جنہیں لکی کمیٹی کہا جاتا ہے وہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس کمیٹی جس ممبر کی کمیٹی کھل جاتی ہے۔ وہ پوری رقم تو لے جاتا ہے۔ لیکن پھر کمیٹی کی ماہانہ رقم بھرنے کا پابند نہیں ہوتا ۔اسی لیے اسے لکی کمیٹی کہا جاتا ہے۔اور یہ جوا کھیلنے کی مانند ہے۔ اسی لیے اس کمیٹی کو حلال نہیں کہا جاسکتا ۔مفتی صاحب نے بتایا لکی کمیٹی یا اس سے ملتی جلتی اور کمیٹی ڈالنا اور اس پر رقم حاصل کرنا جائز نہیں بلکہ حرام ہے اسی لیے ایسی کمیٹی میں شمولیت سے گریز کرنا چاہیے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں