ڈیلی نیوز! اللہ رب العزت نے قرآن پاک کی سورہ جاثیہ میں فرمایا ہے وسخر لکم مافی السماوات وما فی الارض جمیعا منہ جس کا ترجمہ ہے اور اس نے تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور کچھ زمین میں ہے سب کو اپنی طرف سے ایک نظام کے تحت مسخر کر دیا ہے ۔تسخیر کا مطلب ہے کسی چیز کو تابع کرنا ،عاجز کرنا پست کرنا بلا اجرت کسی کام پر اللہ کا دینا یا بغیر کسی معاوضے کے خدمت لینا وغیرہ گویا انسان کو بتایا جارہا ہے کہ
یہ کائنات کی ساری بزم فقط تمہارے لئے سجائی گئی ہے اور اس لئے سجائی گئی ہے کہ تم اس میں تصرف کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق اسے استعمال میں لاؤقرآن مجید میں تیئس مقامات پر کائنات کی مختلف اشیاء کو انسان کی خدمت میں مامور کئے جانے کا ذکر ہے ان میں انیس مقامات ایسے ہیں جن میں پوری بنی نوع انسان کے لئے تسخیر کائنات کا تذکرہ ہے جب کہ چار مقامات ایسے ہیں جہاں خصوصی تسخیر کا ذکر کیا گیا ہے مثلا حضرت داؤد ؑ کے لئے پہاڑ اور حضرت سلیمان ؑ کے لئے ہوا کو تابع بنانے کی خوشخبری آٹھ مقامات پر شمس و قمر کی تسخیر کا ذکر ہے تین مقامات پر کشتی کی تسخیر ایک مقام پر دن اور دو مقام پر دن اور رات ایک مقام پر سمندر ایک مقام پر بادل دو مقام پر نجوم یعنی کہ
ستارے اور ایک مقام پر پرندوں دو مقام پر مویشیوں اور ایک مقام پر سواری اور تین مقامات پر کائنات کی جمیع اشیاء کے مسخر کئے جانے کا تذکرہ کیا گیا ہےیہ سب کچھ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ کائنات انسان کے حوصلوں کی جولان گاہ ہے اور اب یہ انسان کا امتحان ہے کہ وہ کس حد تک ہمت و جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے تسخیر کائنات کے منصوبہ کو عملی جامہ پہناتا ہے اور اس میں تصرف کرتے ہوئے اسے خالق کی منشاء کے مطابق استعمال میں لاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوعقل سلیم عطا فرمائی ہے اور یہ اپنی عقل سے اللہ کی مسخر کردہ چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرسکتا ہے اسی تسخیر کے حوالے سے حضرت علی ؓ کا ایک قول ذکر کیاجارہا ہے کہ
ایک انسان دوسرے انسان کی سوچ کو کیسے بدل سکتا ہےحضرت علی ؓ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کرنے لگا اے علی ؓ میرے کچھ دوست ہیں جو میرے بارے میں کچھ غلط سوچ رکھتے ہیں میں بار بار ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں لیکن وہ لوگوں کی باتوں پر یقین کر کے مجھے ہی برا سمجھتے ہیں اب میں کیا کرو تو اس شخص کے اس سوال پر حضرت علی ؓ نے فرمایا کاش اے انسان تجھے یہ علم ہوتا کہ اللہ نے انسان کے وجود میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے جس کے وسیلے سے وہ کسی کے دماغ میں اپنی بات ڈال سکتا ہے تو وہ حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگا اے علی ایسی کیا چیز ہے جس سے میں کسی کے دماغ میں بھی اپنی سوچ ڈال سکتا ہوںتو حضرت علی ؓ نے فرمایا انسان کے دماغ کا اختیار صرف انسان کے جسم پر ہی نہیں بلکہ
پوری کائنات پر ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ انسان اپنی محدود زندگی اور اپنی خواہشات میں اپنے آپ کو اتنا مصروف رکھتا ہے کہ وہ اس دماغ سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو اس نے کہا اے علی ؓ میں کیسے اپنے دوستوں کے دماغ میں اپنے لئے پیار دال سکتاہوں تو حضرت علی ؓ نے فرمایا تم فجر کی نماز پڑھو اور اس کے بعد کھلے آسمان کے نیچے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے کچھ لمحات کے لئے پر سکون ہوجاؤ جب ناتمہارے ماضی کی یادیں نہ مستقبل کی فکر تمہارے دماغ میں ہواس وقت اپنی آنکھیں بند کر کے اس کائنات کی حرکت کو محسوس کرو اور پھر اس کائنات کی جس خلقت کے بارے میں سوچنا چاہتے ہو اس کو غوروفکر کے ساتھ اپنے سامنے رکھو اور پھر ہلکی آواز میں جو تم کہنا چاہتے ہو
اس کے دماغ میں ڈالنا چاہتے ہو اس بات کو کچھ دیر دہراتے رہو جب یہ عمل کرو گے تو اس انسان کے وجود میں تمہارے لئے وہ سوچ پیدا ہوجائے گی جو تم نے خود اس کے دماغ میں ڈالی ہوگی۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین
اپنی رائے کا اظہار کریں