انسان جب بیماریوں سے عاجز آجاتا ہے تو ڈاکٹر بھی اسے روحانی علاج کا مشورہ دیتے ہیں۔ اب تو بہت سے ہسپتالوں میں قرآن تھیراپی شروع ہوچکی ہے ۔کئی بار لوگوں کو اللہ کے کلام سے شفا پاتے دیکھا اور سنا ہے جن کا اب عقیدہ ہے کہ جو کام ادویات نہیں کرسکتیں وہ اللہ کا کلام سب سے بہتر کرتاہے اور یہ سب سے بہترین اور افضل علاج ہےجس میں شفائے کاملہ موجود ہے ۔پچھلے دنوں ایک صاحب جو سرکاری ادارے میں اچھی پوسٹ پر ہیں بتا رہے تھے کہ انہیں جسمانی طور پر نقاہت اور بے چینی بہت ہونے لگی،تھکن ہر وقت سر پر سواررہتی جبکہ دفتر کا کام اتنا حساس ہے کہ
اس میں غفلت کی کوئی گنجائش نہیں ۔انہوں نے اسکا علاج سورہ فاتحہ سے کیا ہے۔ تانے لگے کہ انہوں نے انتہائی پرسکون حالت میں پوری یک سوئی سے سورہ فاتحہ کو ٹھہر ٹھہر کر اکیس بار پڑھنا معمول بنایا اور چند ہفتوں بعد ان کے بدن اور دماغ میں چستی پیدا ہو ۔ان کا ہر کام میں دل لگتا ہے ۔ بلکہ ہر کام سے پہلے یا کسی بھی مصیبت میں مبتلا ہونے پر سورہ فاتحہ کا سہارا لیتے ہیں تو ان کی مشکل دور ہوجاتی ہے ۔ان کی بیٹی کا رشتہ نہیں ہورہا تھا جس کے لئے انہوں نے سورہ فاتحہ پڑھ کر اللہ سے دعا کی تو انتہائی معقول رشتہ آگیا ۔ان کا ایمان ہے کہ سورہ فاتحہ کی برکت سے ان کی زندگی بدل گئی ہے ۔ سورہ فاتحہ سے شفا کے بارے صحیح بخاری میں ایک جامع حدیث موجود ہے جو یوں بیاں کی گئی ہے ”مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے معبد بن سیرین نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
ہم ایک فوجی سفر میں تھے (رات میں) ہم نے ایک قبیلہ کے نزدیک پڑاو¿ کیا۔ پھر ایک لونڈی آئی اور کہا کہقبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں، کیا تم میں کوئی بچھو کا جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ایک صحابی (خود ابوسعید) اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے، ہم کو معلوم تھا کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں جانتے لیکن انہوں نے قبیلہ کے سردار کو جھاڑا تو اسے صحت ہو گئی۔ اس نے اس کے شکر انے میں تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ جھاڑ پھونک کر کے واپس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے تو صرف سورہ الفاتحہ پڑھ کراس پر دم کر دیا تھا۔ ہم نے کہا کہ اچھا جب تک ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق نہ پوچھ لیںان بکریوں کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو۔ چنانچہ ہم نے مدینہ پہنچ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ
انہوں نے کیسے جانا کہ سورہ الفاتحہ منتر بھی ہے۔ (جاو¿ یہ مال حلال ہے) اسے تقسیم کر لو اور اس میں میرا بھی حصہ لگا نا“ نماز میں اس سورہ فاتحہ کی قرات فرض ہے اور یہ اس کا ضروری رکن ہے جس کے ترک سے نماز باطل ہوجاتی ہے ۔تمام قرآن میں سے صرف اسی سورت کو نماز میں بطور رکن کے مقرر کیا گیا اور باقی قرات کے لئے اختیار دیا گیا کہ جہاں سے چاہو پڑھ لو اس کی وجہ یہ کہ سورہ فاتحہ پڑھنے میں آسان ‘مضمون میں جامع اور سارے قرآن کا خلاصہ اور ثواب میں سارے قرآن کے ختم کے برابر ہے۔اس سورت میں اللہ کی صفات ہیں اور اس کو الشفاءو الرقیہ بھی کہا گیا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ ہر بیماری کے لئے شفاء ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک موقع پر ایک صحابیؓ نے ایک سانپ ڈسے شخص پر اس سورہ سے دم جھاڑا کیا تھا تو اسے شفا ہوگئی تھی
سنن ابن ماجہ ومسند احمد ومستدرک حاکم میں حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ حضرت میرے بیٹے کو تکلیف ہے۔ آپ ﷺ نے پو چھا کہ کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا کہ اسے آسیب ہے۔ آپﷺ نے فرمایا، اسے میرے پاس لے آوچنانچہ وہ لے آیا تو آپﷺ نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور اس پر سورہ فاتحہ اور دیگر آیات سے دم کیا تو وہ لڑکا اٹھ کھڑا ہوا گویا کہ اسے کوئی بھی تکلیف نہ تھی۔ سورہ فاتحہ کو کثرت سے پڑھنا ثواب بھی ہے اور اللہ کی رضا سے بلاشبہ یہ ہر مسئلہ کا حل بھی ہے ۔روزانہ اول آخر درود پاکﷺ کے ساتھ اسکو گیارہ بار پڑھنے والے روحانی طور پر انتہائی مضبوط ہوجاتے ہیں ۔بے شمار امراض سے بچ جاتے ہی
اپنی رائے کا اظہار کریں