حضرت یوسف ؑ کے قصے کو قرآن کریم کی سورۃ یوسف میں بیان کیا گیا ہے۔ اور اس سورۃ پہلی آیات میں اس قصے کو سب سے اچھا قصہ قرار دیا گیا ہے تو جو قصہ سب سے بہترین اور اچھا ہے اُس کے بارے میں جاننا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ اور جو اس قصے کے بارے میں جان چکے ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس قصے کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو اُسے نہیں جانتے کیونکہ اسقصے میں زوال سے عروج حاصل کرنے کا فارمولہ بیان کیا گیا ہے۔ سیدنا حضرت یوسفؑ اللہ تعالیٰ کے امتحانوں میں ثابت قدم رہے
اور صبر کرنے والے ثابت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بادشاہی عطاء کی تو ناظرین جب حضرت یوسف ؑ کے سوتیلے بھائی اپنے والدمحترم سیدنا یعقوب ؑ کے حکم پر دوبارہ مصر پہنچے اور اپنے بھائی بنیامین کی رہائی۔ درخواست کی تو اس موقع پر انہوں سیدنا یوسف ؑ کو حضرت یعقوب ؑ کا پیغام پہنچایا جب یوسفؑ نے اپنے والد کا خط پڑھا تو زارو قطار رونے لگے۔ جس کے بعد انہوں نے اپنے بھائیوں کو بتایا کہ وہ یوسف ؑ ہیں جسے وہ بچپن میں کنویں میں پھینک آئے تھے یہ سن کر ان کے بھائیوں نے ان سے معافی مانگی تو حضرت یوسف ؑ نے انہیں معاف کردیا اور اپنے بھائیوں سے کہا تو اب تم لوگ میرا یہ کڑتا لے کر گھر جاؤ اور ابا جان کے چہرہ اس کو ڈال دو توانکی بینائی واپس آجائیگی۔ تم سب لوگ سب گھر والوں کو ساتھ لیکر میرے پاس واپس مصر آجانا۔ یہ سن کر سیدنا یوسف ؑ کا بڑا بھائی یہ-ودا کہنے لگا کہ یہ کڑتا میں لے کر جاؤں گا کیونکہ میں یوسف ؑ کا بکری سے خ-و-ن سے رنگا کڑتا میں ہی لے گیا تھا۔
جس سے میرے باپ کو تکلیف ہوئی تھی آج جب میں یہ کڑتا لے کر جاؤں گا۔ یو یقیناً وہ مجھ سے بہت خوش ہونگا۔ یہ-ودا یوسفؑ کا کڑتا لے کر خوشی خوشی مصر قنان کی طرف روانہ ہوا۔ حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ اپنے والد اور سب خاندان کو لانے کیلئے دو سو سواریاں بھی بھیجیں یہودا جیسے ہی سیدنا یوسفؑ کا کڑتا لے کر مصرسے قنان کی طرف روانہ ہوا تو ادھر قنان میں سیدنا یعقوب ؑ کو اپنے لخت جگر اور جان سے پیارے بیٹے حضرت یوسف ؑ کی خوشبو محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنے پوتوں سے اس کا ذکر کیا اس بات قرآنکریم میں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ سیدنا یعقوب ؑ کہنے لگے کہ اگر تم مجھے یہ نہ کہو کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے تو مجھے تو یوسفؑ کی خوشبو آرہی ہے تو حضرت یعقوب ؑ کے پوتوں نے کہا توآپ اب بھی اس پرانی سی بات پر پڑے ہوئے ہیں۔ بھلا کہاں یوسفؑ اور کہاں ان کی خوشبو تو جب برادران یوسف ان کا کڑتا لے کر
گھر پہنچے اور اپنے والد کے چہرے پر ڈالا تو ان کی آنکھیں درست ہوگئیں اور ان کی روشنی واپس آگئی جس پر سیدنا یعقوبؑ نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں۔ تم نہیں جانتے پھر یعقوب ؑ نے تہجد میں اللہ تعالیٰ سے اپنے بیٹوں کی معافی کی دعا کی اور آپ کی دعا کی وجہ سے تمام برادران یوسف کی بخشش ہوگئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری سنائی کے آپ بیٹوں کے گ-ن-اہ-و-ں کو آپ کی دعاؤں سے معاف فرما دیاگیا ہے پھر حضرت یعقوب ؑ نے اپنے لخت ج-گ-ر سیدنا یوسفؑ کی ملک مصر جانے کی تیاریاں شروع کیں۔ حضرت یعقوب ؑ کے خاندان کے کل بہتر یا تہتر آدمی تھے جو مصرروانہ ہوئے جب حضرت یعقوبؑ کا قافلہ مصر کے قریب پہنچا تو حضرت یوسف ؑ ایک عظیم الشان جلوس کے ہمراہ آپ کے استقبال کیلئے آئے۔ اس جلوس کے دونوں طرف مصر کی عوام باادب کھڑی تھی حضرت یعقوب ؑ نے اپنے بیٹے ی-ہ-و-دا- سے پوچھا کیا کہ ف-ر-ع-ون- مصر کا ل-ش-ک-ر- ہے۔
تو ی-ہ-و-د-ا نے انہیں فرمایا نہیں ابا حضور یہ ل-ش-کر ف-ر-ع-ون- نہیں یہ آپ کے بیٹے سیدنا یوسفؑ کا ل–ش-ک-ر ہے۔ جو آپ کے استقبال کیلئے آیا ہوا ہے سیدنا یویعقوب ؑ اس بات پر حیران ہوئے تو اتنے میں حضرت جبرائیل ؑ تشریف لے آئے اور آپ نے سیدنا یعقوب ؑ سے فرمایا کہ اے اللہ عزوجل کے نبی ذرا سر اٹھا کرآسمان کی طرف بھی دیکھیں آپ خوشی میں شرکت کیلئے فرشتوں کا ہجم غفیر بھی حاضر ہے اور ان میں وہ فرشتے بھی شامل ہیں جو آپ کے غم میں آپ کیساتھ روتے رہے اس کے بعد سیدنا یعقوب ؑ اپنے فرزند حضرت یوسفؑ سے ملے چالیس سال بعد ہونے والی اس ملاقات نے باپ بیٹے کو آب-د-ید-ہ کردیا دونوں دیر تک ایک دوسرے گلے لگے رہے پھر حضرت یوسفؑ اپنے خاندان کو لیکر اپنے دربار میں پہنچے اور سیدنا یعقوب ؑ کو سہارا دیکر اپنے تختِ شاہی پر بٹھایا اور ان کے ارد گرد آپ کے گیارہ بھائی اور آپ کی سوتیلی ماں بھی بیٹھ گئی اس کے بعد شاہی آداب کے احترام میں سب نے سیدنا یوسفؑ کے سامنے سجدہ کیا تفسیر یوسف میں لکھا ہے یہ سجدہ تہید تھا جو اس وقت جائز تھا جب سب کے سب حضرت یوسفؑ کے سامنے سجدے میں گر پڑے تو اس کے بعد انہوں نے اپنے والد سے کہاکہ
ابا جان یہ پہلے خواب کی تعبیر ہے بے شک اسے میرے رب نے سچا کیا اور بے شک مجھ پر احسان کیا کہ مجھے ق-ی-د سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا اس کے بعد ش-ی-ط-ا-ن نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاکی کراد ی بے شک میرا رب جس کام کو چاہے آسان کردے بے شک وہی علم وحکمت والا ہے یعنی میرے گیارہ بھائی ستارے ہیں اور میرے باپ سورج اور میری والدہ چاند ہیں اور یہ سب مجھ کو سجدہ کررہے ہیں اس کے بعد بادشاہ مصر حضرت یوسف ؑ پر ایمان لے آیا اور اس نے ساری بادشاہت آپ کے حوالے کردی اس طرح بنی اس-ر-ا-ئ-ی-ل کو مصر میں حکومت مل گئی اور یہاں آباد ہوگئے۔ حضرت یعقوب ؑ نے اپنی باقی زندگی حضرت یوسف ؑ کے ساتھ خوش وخرم گزاری سیدنا یعقوب ؑ تقریباً چوبیس سال تک مصر میں رہے اور پھر ان کی وفات ہوگئیجس کے بعد حضرت یوسف ؑ نے انہیں ان کی وصیت کے مطابق ف-ل-س-ط-ی-ن میں تدفین کیا ۔حضرت یعقوب ؑ کی وفات کے بعد حضرت یوسف ؑ نے مزید تئیس سال مصر پر حکومت کی آپؑ نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی سیدنا یوسف ؑ کے وصال کے بعد انکی تدفین پر انکے چاہنے والوں میں اختلاف پیدا ہوگیا مصر کی عوام کا آپ کی محبت میں یہ عالم تھا کہ ہر کوئی چاہتا تھا کہ حضرت یوسفؑ کو ان کے محلے میں د-ف-ن کیا جائے تاکہ انکے محلے میں خیروبرکت رہے آخر میں اہلیان مصر اس بات پر راضی ہوئے کہ
آپ کو دریائے نیل میں د-ف-ن کیا جائے تاکہ دریا کا پانی آپ کی ق-ب-ر مبارک کو چھو کر گزرے اور تمام مصر والے اس سے برکت حاصل کریں۔ اس لیے آپ جسم مبارک کو سنگ مرمر کے صندوق میں بند کر دریائے نیل میں د-ف-ن کردیا گیا پھر چار سو سال بعد حضرتموسیٰ ؑ کے زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے بنی اس-ر-ا-ئی-ل کو حضرت موسیٰ ؑ کی قیادت میں مصر چھوڑنے کا حکم دیا تو سیدنا موسیٰؑ کو حضرت یوسف ؑ کی میت بھی اپنے ساتھ لے جانے کا حکم دیا جس پر حضرت موسیٰ ؑ ان کا تابو دریائے نیل سے نکال کراپنے ساتھ ف-ل-س-ط-ی-ن لے گئے جہاں سیدنا یوسفؑ کے تابو ت کو حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ کے برابر میں د-ف-ن کیا گیا اس وقت آپ کا مزار مبارک ف-ل-س-طی-ن میں ہے یہ تھا وہ قصہ جس کو اللہ تعالیٰ نے احسن القصص کہا ہے بے شک اس قصے میں تمام انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کیلئے بڑا سبق اور عبرت ہے اللہ عزوجل سے دعاہے کہ ہم سب کو دین سیکھنے اور سکھانے کی توفیق عطاء فرمائے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں