بیٹی ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر اس میں اتنی بڑائی ، وسعت، دلکشی اور شرینی ہے. کہ لبوں سے ادا ہوتے ہی پورے جسم و جاں میں حلاوت کھل جاتی ہے.بیٹی سے محبت یقیناً سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دورِ جاہلیت میں جب بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا ، اس رسم قبیحہ کا پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے قلع قمع کر کے بیٹی والوں کو بشارت دی. اور نوید سنا دی کہ جس نے اپنی بیٹیوںکی صحیح خطوط پرورش کی، انہیں پیار اور لاڈ دیا،ا ن کو گھر گرہستی سنبھالنے کے قابل کیا، وہ جنت کا حقدار ہے۔
بلا شبہ بیٹی گھر کی رونق و برکت ہے،اس رشتے کی خوبصورتی ہی کچھ ایسی ہے کہ عمر بھر والدین کی ہمدرد و غم گسار رہنے والی یہ ننھی منهی پری آنگن میں کیا اترتی ہےکہ گھر بھر میں ٹھنڈی چھاﺅں ونرم چاندنی سی بکھر جاتی ہے.ابھی پنگوڑے ہی میں ہوتی ہے کہ زندگی کے دھوپ چھاوں سے ”سمجھوتے“کرنا سیکھنے لگتی ہے.بھوک ستائے تو زیادہ شور نہیں مچاتی ،منہ میں انگوٹھا لے کر آنکھیں موند لیتی ہے.گھٹنوں کے بل چلنا سیکھتی ہے تو باپ کی ایک آواز پہ لپک کے جاتی ہے ،ماں کو چھوٹی چھوٹی چیزیں لالا دیتی ہے .باپ نے چمکارا ،ماں نے چوم لیا تو سارے گھر میں قلقاریاں گونج اٹھتی ہیں.ذرا سا کسی نے جھڑک دیا ، چہرے کیرنگت بدل جاتی ہے…آنکهوں سے انسو بہنے لگتے ہیں۔ جب پاﺅں پاﺅں چلنا سیکھتی ہے تو ماں کے کتنے بکھیڑے سمیت لیتی ہے ،کبھی ساتھ بیٹھی مٹر ،پھلیاں چھیل رہتی ہے تو کبھی دهلے کپڑے سمیت لیتی ہے۔باپ کے جوتے برش کرتی ہے
تو ماں کے الجھے بالوں میں کنگھی بھی پھیرلیتی ہے۔یہ پکڑا ،وہ رکھ ،یہ کر ،وہ اٹھا ،یہ لا ،وہ دے۔ننھے ننھے قدم بڑے بڑے کام کرکے یہ ننھی پَری کہاں کہاں اپنی موجودگی کا احساس نہیں دلاتی. اپنی باتوں سے آنگن کو مہکاتی اور اپنی چہکار سے گھر کو رونق بخشتی ہے ذرا بڑی ہوگئی ،پھر تو ہر کام میں باقاعدہ ہاتھ بٹانے اور حصہ ڈالنے لگتی ہے۔بہن بھائیوں کے بیسیوں مسئلے حل کرتی ،باپ کی الجھنیں سلجھاتی ،ماں کا اشارہ ابرو سمجھتی ہے۔قد کاٹھ نکالا نہیں کہ پابندیوں کی زد میں آجاتی ہے۔”ایسے نہیں چلتے “سے لے کر”وہاں جانا ٹھیک نہیں“تک کیا کیا روک ٹوک نہیں ہوتی ؟؟؟مگر یہ نو خیز کلی سب سہہ جاتی ہے کہ بچپن ہی سے اسے سَر اٹھانے کاجوگا ہی نہیں چھوڑتا۔”تم پرایا دھن ہو،، ”تم پرائی امانت ہو،سسرال جاکے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔“سارے گرنہیں سیکھو گی ،تو پرائے گھر جاکے ماں باپ کی ہنسی اڑواﺅ گی۔“ اور بھی نہ جانے کیا کیا ڈراوے اسے باربار سہنے پڑتے ہیں؟
اور وہ چڑیا سے دِل والی ،اندر اندر لرزتی ،پتے کی طرح کانپتی رہتی ہے۔گردن جهکائے سمجھوتے کی چادر کی بکل لپیٹے جی جی کئے جاتی ہے۔ایسی پیاری ،راج دلاری ،من موہنی بیٹی ، کیاوالدین پر کبھی بوجھ ہوسکتی ہے۔کبھی جگر کا ٹکڑا ،آنکھ کی ٹھنڈک،مَن کا چین بھی کسی کو بھاری ہوا ہے؟۔مگر جیون کے کٹھن سفر پہ اڑتی ان کی نرم و نازک تتلی گھبرا نہ جائے. کہیں تھک کے نہ گر پڑے ،کسی سےمات نہ کھاجائے .یہ خیال ماں باپ کو بیٹیوں پر سختیاں کرنے ،قد غنیں لگانے اور شادی کے بعد والی زندگی کی تربیت دینے پر مجبور کردیتا ہےکیوں کہ سچ تو یہی ہے کہ بیٹی شاہ کی ہو یا گدا کی ،ایک نہ ایک روز بیاہنی پڑتی ہے۔امانت اس کے مالک کے سپرد کرنا ہی ہوتی ہے کہ یہی مشیت ایزدی ،مالک ِکون و مکان کا ابدی حکم ہے۔اپنے گھر کی ساری رونق ،ٹھنڈک ،روشنی کسی دوسرے کے حوالے کرنا کوئی آسان بات نہیں۔بابل کا جیا کٹ کٹ جاتا یے .
ممتا کی ماری ،اپنی گڑیا سے نظریں ملاتے ڈرتی ہے ،کہیں باندھے بند ٹوٹ نہ جائیں ،دونوں دِل پر پتھر رکھ کے اس کے رخصتی کا سب سامان اورسارااہتمام خوشی خوشی کئے جاتے ہیں کہ کہیں کوئی کسَر ،کوئی کمی ان کی لاڈلی کے دل میں ہلکی سی بھی کوئی پھانس ،کوئی چبھن نہ چھوڑجائے۔ ظاہر ہے کہ ایک بیٹیاپنے والدین کی جو خدمت کرتی ہے وہ کئی بیٹے مل کر بھی نہیں کرسکتے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیٹیاں اگرچہ پرائی ہوتی ہیں تاہم پرائے گھر میں جانے کے بعد بھی وہ اپنے میکے کو نہیں بھولتیں۔وہ اپنے پیا کے گھر میں ہوکر بھی ہمیشہ اپنے میکے کے لئے سوچتی اور تڑپتی رہتی ہیں،چنانچہ والدین کا بیٹیوں سے محبت فطری ہے ،جس کا فائدہ داماد کو ملتا ہے .اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بیشتر گھروں میں جو مقام بیٹوں کو نہیں مل پاتا وہ داماد کو مل جاتا ہے. داماد کی خوشنودی کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دی جاتی ہیں اس لئے کہ اس میں محض اپنی بیٹی کا سکھ تلاش کیا جاتا ہے۔بیٹی کی خواہشات کے لئے ماں باپ اپنی خواہشات لٹا دیتے ہیں.اور پھر ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہیں کبھی کبھی ان کی خوشی کے لئے دائمی غم اختیار کرلیتے ہیں .خود خون کے گھونٹ پی لیتے ہیںاور اپنے آنسو خشک کرلیتے ہیں
اپنی رائے کا اظہار کریں