اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فر ما تے ہیں جس کا مفہوم ہے اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر بتیس اگر دعا کرنے والا دعا کرے اور ساتھ گ ن ا ہ والے کام بھی کر تا رہے یا ان سے توبہ نہ کرے تو ایسے شخص کی دعا بارگاہِ الٰہی شرفِ قبولیت حاصل نہیں کر سکتی ۔ اس لیے دعا کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے توبہ و استغفار کرے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر ما یا جس کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی دعا کاجواب دے گا ۔
جب تک کہ وہ جلد باز نہ ہو صحابہ کرام ؓ نے پو چھا یا رسول اللہ ﷺ یا رسول اللہ جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ دعا کو آرام سے پڑھنے کی بجا ئے جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فر ما یا نہیں بلکہ جلد باز وہ ہے جو اللہ سے دعا کرے اور اسے جواب نظر نہ آ ئے اور وہ سوچ لے کہ اللہ اس کی دعا کا جواب نہیں دے گا اور پھر دعا مانگنا بند کر دے حضور نبی کریم ﷺ نے فر ما یا اللہ تعالیٰ اس کی دعا کا جواب دے گا مگر وہ دعا سے بد دل نہ ہو ما یوس نہ ہو اور نہ امید نہ ہو۔ لہٰذا اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جا نا اور یہ سوچ لینا کہ اللہ تعالیٰ دعا کا جواب نہیں دے گا ایک اہم وجہ ہے۔ جو اس شخص کی دعا کی قبولیت میں رکاوٹ ڈالتی ہے اس لیے جب بھی اللہ پاک سے دعا مانگیں تو مانگتے رہیں اللہ پاک ضرور عطا فر ما ئیں گے
مایوس نہیں ہو نا ہمت نہیں ہارنی بس یہ سوچ لیں کہ وہی میرا مالک ہے وہی مجھے عطا کر ے گا وہی مجھے سب کچھ دے گا نبی کریم ﷺ اللہرب العزت سے روایت کر تے ہیں فر ما تے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فر ما تا ہے آدم کے بیٹے جب تک تو مجھ سے دعا کر تا رہے گا اور مجھ سے امید رکھے گا میں تمہیں معاف کر تا رہوں گا چاہے تم سے کچھ بھی سر زد ہو تا رہے۔ اپنی حاجت کو پورا کر وانا چاہتے ہیں کوئی بھی آپ کا مقصد ہے دس مرتبہ سبحان اللہ دس مر تبہ الحمد اللہ پھر دس مر تبہ اللہ اکبر پڑھیں اور پھر اللہ سے اپنی ضرورت کا سوال کر یں تو اللہ کا جواب ملے گا کہ میں نے تمہارا کام کر دیا ہے تمہارا کام ہو گیا ہے بس آپ لوگوں کا یقین ہو نا چاہیے ایمان ہو نا چاہیے پھر دیکھیں آپ کا ہر کام ہوتا چلا جا ئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی ہر حاجت پوری فر ما دیں گے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں