ماں باپ کی وفات کے بعد ہر رات ایک نیا شخص میرے جسم سے کھیلتا تھا کیونکہ

ماں

مجھے بچپن میں ہی اس بات کا علم ہو چکا تھا کہ ماں اللہ کی کتنی بڑی ہو گیا میں ہوئی تو میری ماں کا انتقال میں ویران ہو وقت آئی جب میرے باپ نے دوسری شادی کر لی ۔ پھر سوتیلی ماں نے اپنا سوتیلا پن دکھایا اور دن رات مجھ سے جانوروں کی طرح کام لیا ۔ مجھے اپنے باپ پر افسوس ہوتا تھا کہ وہ کیسا شخص تھا جو اپنی اولاد سے زیادہ دوسری بیوی کا خیال رکھتا تھا ۔

میری سوتیلیماں کے سر میں ہلکا سا درد بھی ہوتا تو وہ اس کا سر دبانا شروع کر دیتا مگر اسے میرا کوئی احساس نہیں تھا اور احساس ہوتا بھی تو کیوں ساری زندگی تو اس نے میری ماں سے نفرت کی تھی مجھ سے شفقت نہ کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ میں اسی کی اولاد تھی ۔ ایک دن ابو کی دکان پر ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا ۔ انہوں نے لاک توڑ کر جب گلے میں سے سارے پیسے نکال لیے تو ابو نے ان کو روکنے کی کوشش کی رکاوٹ بنے پر ڈاکوؤں نے میرے باپ کو گولی ماردی اور دکان میں سے نفذ پیسے اور قیمتی سامان اٹھا کر لے گئے ۔ باپ کی وفات کے بعد دکان بند ہو گئی اور اب میں مکمل طور پر اپنی سوتیلی ماں کے رحم و کرم پر تھی۔ ابا کی وفات کے کچھ دن بعد ہی کچھ اجنبی لوگوں نے ہمارے گھر آنا جانا شروع کر دیا ۔

وہ شکل سے ہی اوباش لگتے تھے اور مجھے عجیب و غریب نظروں سے تاڑتے تھے ۔ پھر میں نے چھوٹی موٹی نوکری کی تلاش شروع کر دی میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی ۔ ہمارے ہمسائے نے مجھے ایکآفس میں جاب دلا دی اور میں نے اس کا شکر یہ ادا کیا ۔ ایک دن میں آفس سے گھر آئی تو میرے آنے سے پہلے ہی کچھ لوگ میری سوتیلی ماں کے پاس آۓ ہوۓ تھے میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا تو میری ماں ان کے سات میں مصروف تھی ان میں سے ایک شخص کہنے لگا اچھا یہ بتاؤ کہ سویرا کب ہمارے حوالے کر رہی ہو ۔ سوتیلی ماں نے کہا کہ بہت جلد میں اس لڑکی کو تمہارے حوالے کر دوں گی ۔ اس عورت نے مجھے دس لاکھ میں کچ دیا تھا ۔ پانچ لاکھ اس نے ایڈوانس میں لے لیے اور پانچ لاکھ وہ آدمی اسےتب دیتے

جب وہ مجھے ان لوگوں کے حوالے کر دیتی ۔ میری قسمت اچھی تھی جو میں نے ساری گفتگو کھڑ کی سے ہی سن لی تھی ۔ میں انہی قدموں واپس چلی گئی ۔ میرے پاس کچھ پیسے موجود تھے مگر میں سوچ رہی تھی کہ اب کہاں جاؤں میرا اس شہر میں کوئی جاننے والا بھی نہیں تھا ، میرے ذہن میں سر واجد کے علاوہ کوئی شخص نہیں آرہا تھا ۔ سر واجد ہمارے آفس کے ہیڈ تھے سر نے میرے ساتھ تعاون کیا اور کچھ دن مجھے آفس میں ہی رہنے کی اجازت دے دی ۔ کچھ دنوں کے بعد سر واجد نے کہا کہ کمپنی کی طرف سے ہم ایک ہفتے کے لیےدینی جار ہے ہیں ، تمہار اد ھر ایک جگہ انٹرویو ہو گا اگر تم کامیاب ہوئی تو ادھر ہی تمہاری جاب لگ جائے گی ۔ پھر میں مستقبل کے سہانے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے

دبئی روانہ ہوئی ۔ سر واجد کا یہ ایک ایسا ٹرپ تھا جس کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ ایک دن اس نے میرے بیگ میں کچھ نشہ آور اشیا ڈال دیں پہلے تو اس نے مجھے دیئی پولیس سے گرفتار کروایا ۔ پھر رہا کروانے کے بعد مجھ سے کہنے لگا کہ اب جیسا میں کہوں گا تجھے ویسا ہی کرنا پڑے گا ورنہ دوبارہ پولیس کے حوالے کر دوں گا۔اس نے مجھے ایک مساج سینٹر کے حوالے کیا جہاں مختلف مرد عورتوں سے مساج کروانے آتے تھے ۔ صرف یہی نہیں ۔ پھر وہ مجھے مجبور کرتا کہ رات کو میں ایک کلب میں ڈانس کروں ۔ وہ ایک مساج سینٹر اور کلب میں میرا سودا کر کے واپس چلا گیا ۔ دن میں میں مختلف لوگوں کا مساج کر کے ان کو تسکین پہنچائی اور رات کو کلب میں ڈانس کر کے لوگوں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کرتی ۔

کلب میں لوگ شراب کے نشے میں ڈانس دیکھنے آتے تھے میر ہے علاوہ بھی کئی لڑکیاں تھی جو اسٹیج پر ناچتی تھیں اگر کسی آدمی کو اسٹیج پر کوئی ڈانسر پسند آ جاتی تو وہ جا کر اس لڑکی کے بازو پر ایک سرخرنگ کی پٹی باندھ دیتا اس پٹی پر اس آدمی کا نام اور لڑکی کے ساتھ رات گزارنے کی قیمت لکھی ہوتی تھی ۔ ڈانس ختم ہونے کے بعد کلب کا مینجر لڑکیوں کے بازوؤں پر بندھی پٹیوں کو چیک کرتا اور دیکھتا کہ جس آدمی نے بھی بھٹی پر زیادہ رقم لکھی ہوتی تو مطلوبہ لڑ کی اس کے حوالے کر دیتا ۔ ہر رات میرے لئے قیامت سے کم نہیں تھی کیونکہ ہر رات ایک نیا شخص مجھے کمرے میں لے جاتا اور میرے جسم کے ساتھ کھیلتارہتا ۔ ایک دن کلب میں کچھ لوگ داخل ہوئے.

ان میں سے ایک شخص عجیب وغریب نظروں سے کلب کے چاروںطرف دیکھ رہا تھا ایسا لگتا تھا وہ زندگی میں پہلی بار کلپ میں آیا تھا ۔ اسے یہ غیر انسانی ماحول بہت عجیب لگ رہا تھا ۔ وہ تو نہ کسی سے بات کرتا تھا اور نہ ہی ڈانسر کے ڈانس سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔ میں اس لڑکے سے نظریں بچا کر مینیجر بہت خراب ہے ۔ میں آج ادا کیا اور کہا کہ میری طبیعت مجھے ایک دن کی چھٹی دے دی ، میں نے کسی طریقے سے اس کا نمبر حاصل کیا اور اس سے بات چیت شروع کر دی اس نے بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں دینی میں چھٹیاں گزارنے آیا منحصہے ، باتوں ہی باتوں میں ہماری دوستی ہو گئی ۔ وہ تو مجھے پہلی ہی نظر میں پسند آ گیا تھا مگر میری یہ خوش نصیبی تھی کہ اسے بھی میں پسند آ چکی تھی ۔

وہ مجھے اپنانا چاہتا تھا اور اپنے ساتھ واپس پاکستان لے جانا چاہتا تھا ۔ کل ہماری پہلی ملاقات تھی کہ اچانک اس کی کال آئی کہ میرے والد کا انتقال ہو چکا ہے مجھے ابھی واپس جانا پڑے گا ، پھر وہ واپس چلا گیا اور میں دوبارہ اپنی روٹین پر آ گئی ۔ کچھ دنوں کے بعد مجھے اس کی کال موصول ہوئی کہ فلاں جگہ پر مجھ سے ملو وہ میری خاطر دوبارہ دبئی آیا تھا ۔ میں نے اس کی محبت اور خلوص کو دیکھتےہوۓ یہ فیصلہ کیا کہ میں راشد کو اند ھیرے میں نہیں رکھوں گی اور اسے یہ بات بتادوں گی کہ میں ادھر روز ایک نئے مرد کے ساتھ سوتی ہوں ۔ ملاقات کے وقت وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ پھر میں نے راشد کو اپنے بارے میں ساری حقیقت بتادی ، راشد نے مجھ سے کہا کہ تم کیا سمجھتی ہو مجھے کچھ معلوم نہیں ہے

میں نے تجھے کلب میں ہی دیکھ لیا تھا ، میں نے تمہاری آنکھیں پڑھ لیں تھیں کہ تم ادھر کسی نہ کسی مجبوری کے تحت ہی کام کر رہی ہو ۔ راشد نے میری حقیقت جاننے کے باوجود بھی مجھے دل سے قبول کر لیا ۔

اپنی رائے کا اظہار کریں