میرا بیٹا پیدا ہوا تو اس کے کان نہیں تھے کیونکہ میرے خاوند کے اندر یہ عادت تھی

کیونکہ

اسلام آباد(تازہ خبر 92) ایک عورت کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا، وہ اور اس کا خاوند بہت خوش تھے. انہوں نے اپنے بچے کو پہلی بار دیکھا، وہ بہت خوبصورت تھا لیکن اس کے کان نہیں تھے.انہوں نے ڈاکٹر سے پوچھا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کے کان اندر سے بالکل ٹھیک تھے اوروہ کسی بھی طرح سے معزور نہیں تھا لیکن اس کے باہر نظر آنے والے کان نہیں تھے۔

اور اس کے لیے ڈاکٹر اس وقت کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایک بہت چھوٹا سا بچہ تھا. اس کی ماں اسی وقت سمجھ گئی کہ اس بچے کے لیے لوگوں کا سامنا کرنا اور ایک نارمل زندگی گزارنا بالکل نا ممکن تھا. جب وہ بچہ سکول جانا شروع ہوا تو وہ پڑھائی میں باقی سب سے بہتر تھا لیکن حسد کی وجہ سے باقی لڑکے اس باقی لڑکے اس کے کان کا مزاق اڑاتے تھے.وہ جب بھی سکول سے واپس آتا اس کاچہرہ لٹکا ہوا ہوتا تھا. اس کی ماں بہت پریشان رہتی تھی. وہ لڑکا آہستہ آہستہ پڑھائی میں بھی کمزور ہوتا جا رہا تھا کیونکہ وہ باقیوں کی باتوں کو دل پر لیتا تھا. پھر وہ کالج کا طالب علم ہو گیا اور پھر یونیورسٹی جانے لگا لیکن وہ جدھر بھی جاتا لوگ اس کا مزاق اڑاتے تھے.

ایک دن اس کا باپ جا کر ڈاکٹر سے ملا اور بتایا کہ ان کا بیٹا احساس کمتری کا شکار ہو گیا ہے،کچھ ایسا نہیں ہے کہ اس کے کان ٹھیک کیے جا سکتے ہوں؟ ڈاکٹر نے بولا کہ ہو تو سکتا ہے لیکن اس کے لیے کوئی ڈونر چاہیے ہو گا. لڑکے کا باپ دو سال ادھر ادھر مارکٹنگ کرتا رہا اور لوگوں سے پوچھتا رہا آخر ایک دن وہ اپنے بیٹے کے پاس گیا اور اس کو بولا کہ چلو ہسپتال چلیں آپ کے لیے ڈونر مل گیا ہے،اس کا بیٹا بہت خوش ہواکہ پوچھا کہ کون اتنا عظیم انسان ہے؟ باپ نے بولا کہ اس نے مجھے بتانے سے منع کیا ہے، بس سمجھو کہ یہ ایک راز ہے. آہستہ آہستہ اس کی پڑھائی پہلے کی طرح بہت بہتر ہو گئی اور وہ ٹاپ کرنے لگ گیا. اس نےاس کا آپریشن کامیاب رہا اور وہ دیکھنے

میں بالکل نارمل بلکہ بہت وجیہہ نظر آنے لگ گیا. بہت اچھے زندگی کا آغاز کر لیا. پھر اس کی شادی ہو گئی اور اس کے بچے بھی ہو گئے، کبھی کبھی وہ اپنے ماں باپ سے پوچھتا کہ وہ کون ہے جو اس کا محسن ہے جس نے اسے نارمل زندگی گزارنے کے قابل بنایا ہے.وہ ٹال دیتے کہ جب وقت آئے گا تو بتا دیں گے، ابھی اس کو راز ہی رہنے دو. جس دن اس لڑکے کا ماں کی وفات ہوئی وہ اس کے لیے پہلے ہی بہت بھاری دن تھا، اس کے باپ نے تابوت کے پاس اسے بلایا اور اس کی ماں کے بال ایک طرف کر کے اس کو دکھایا تو اس کی ماں کے کان نہیں تھے. اس نے اپنے بیٹے کو بتا دیا تھا کہ اس کی سب سے بڑی محسن کونسی عظیم ہستی تھی. وہ لڑکا بہت رویا اور اس نے اپنے باپ سے پوچھا

کہ کبھی کسی نے ماں کو تو عجیب نظروں سے نہیں دیکھا تھا کہ ان کے کان نہیں تھے، باپ نے بولا کہ جن کا دل اتنا صاف اور خوبصورت ہو ان کی شکل اور ظاہری حلیے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، لڑکا اب سمجھا تھا کہ اس کی ماں اتنے عرصے سے بال ہمیشہ کھلے کیوں چھوڑتی تھی۔

اپنی رائے کا اظہار کریں